• Breaking News

    قیام امن کے لئے’ضرب امن‘

    ڈاکٹر طاہرالقادری جن کی ذاتی زندگی، طریقہ احتجاج و انتقام اور طرز سیاست پر جیسے دوسرے اہل نظر و بینش کو اعتراض ہے، بالکل مجھے بھی اسی طرح اختلاف ہے۔ لیکن اس اختلاف کا قطعی مقصد ان کے مثبت کردار کو روایتاً حدف تنقید بنانا نہیں، بل کہ یوں کہہ لیجئے کہ معاشرے میں ان کا جتنا مثبت کردار ہے اس پر میں یا کوئی اور سوالیہ نشان نہیں لگا سکتا۔ وجہ یہ ہے کہ طاہرالقادی منطقی و استدالی بات کرتے ہیں۔ مسلم معاشروں میں اقامت دین اور امت مسلمہ کو دینی راہ رویوں سے روکنے کے لئے جو کردار انہوں نے ادا کیا ہے، قابل ذکر ہے۔ اس بات میں بھی کوئی مغالطہ نہیں کہ وہ پڑھے لکھے عالم و فاضل ہی نہیں بل کہ صاحب رائے اور حقیقی معنوں میں ایک باکردار شخصیت کے حامل ہیں۔ یاد دہانی کے لئے دہرائے دوں کہ ان کے کسی سیاسی پہلو کو اپنی تحریر کا حصہہ نہیں بنا رہا، وہ اسی لئے کہ اس پر مجھے اختلاف ہے۔ پھر میرے اختلاف پر ان کے پیروکاروں کو کچھ ناگوار لگے اور مجھ پر تعن و تشنیع ہو، اس رستے ہی نہیں پڑنا چاہتا۔
    ڈاکٹر طاہرالقادری کی جماعت عوامی تحریک کے ذیلی ونگ منہاج یوتھ لیگ نے ان دنوں"ضرب امن"کے نام سے سائیکل ریلی منعقد کر رکھی ہے، جو خیبر سے کراچی تک فروغ امن کی کاوش کو لئے شہر شہر جائے گی۔ اس تعمیری سرگرمی کا مقصد زیادہ تر یہی ہے کہ نوجوان طبقے میں آگاہی و شعور پیدا کیا جائے۔ پورا پاکستان جب دہشت گردانہ حملوں کی لپیٹ میں تھا، مذہبی، سیاسی اور عوامی حلقے اچھے اور برے کی تفریق میں الجھے ہوئے تھے تو ڈاکٹر صاحب نے غلباً چھ سو صفحات پر محیط مبسوط تاریخی فتویٰ دیا۔ احادیث نبوی اور فرامین کی روشنی میں دہشت گردوں کو خوارج کہا اور واضح کیا کہ ان کا اسلام سے کوئی تعلق ہے نہ ہی یہ مسلمان ہیں۔ بل کہ مسلمانوں کا روپ دھارے وہ خوارج ہیں جن کا آقائے دو جہان نے اپنے دورحیات میں ہی کہہ دیا تھا اور اسی علاقے کی طرف اشارہ کیا تھا۔ میں بوجوہ یہ کہہ رہا ہوں کہ قادری صاحب جیسا مبلغ اور پڑھا لکھا عالم پاکستان میں نہیں، جس پر میں اٹل ہوں اور یہ رائے کبھی تبدیل نہیں ہو سکتی۔ دہشت گردی کے عفریت سے لبا لب پاکستان کے لئے "دہشت گردی و فتنہ خوارج"فتویٰ وقت کی اہم ضرورت تھی، جب لوگ مصلح گروہوں کے ساتھ ہم دردی جتانے لگے تھے اور بذریعہ تلوار نفاذ اسلام کو صحیح اور جائز سمجھنے لگے تھے، تاہم ان کی رہنمائی کو کوئی نہیں اٹھ رہا تھا تو ڈاکٹر قادری نے زندگی کا پہلا فتویٰ دیا۔ شاید دوسرے علماء اس انجام دہی میں اس لئے پیچھے رہے کہ ہمارے بیشتر علماء دین زیادہ آگاہی و علم نہیں رکھتے اور محض جذباتی ہتھیار سے لوگوں میں تشہیر اسلام کا فریضہ ادا کر رہے ہیں۔ڈاکٹر قادری نے اس وقت بھی دو ٹوک موقف اختیار کیا جب ممتاز قادری نے سلیمان تاثیر کو گستاخ رسولؐ گردان کر قتل کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک ریاست میں، مسلم معاشرے میں اور قانون کی موجودگی میں کوئی فرد واحد قانون کو ہاتھ میں لے کر قتل نہیں کر سکتا۔ لیکن اس موقف پر دیگر مذہبی گروہوں نے ان سے ایک قسم کا سوشل بائیکاٹ کر لیا اور اپنی ہر تقریر و خطبہ میں ان پر حتیٰ کہ گالم گلوچ کرتے۔ ڈاکٹر قادری کے وژن و بصیرت پر داد تحسینی ان کا حق ہے، وہ دور انحطاط میں مسلم معاشروں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں اور بد قسمتی سے ان کے حاسدین ایسے لوگ ہیں جو اپناکوئی دماغ رکھتے ہیں نہ ان کے شعور کی داخلی کھڑکی کھلی ہے۔ چنانچہ سنی سنائی باتوں ارو من گھڑت رویوں کی ترویج کرتے ہیں۔ خیر ان باتوں کا کچھ حاصل نہیں، بل کہ مجھے وہ لمحے بھی یاد ہیں جب قادری صاحب نے سب سے پہلے "نظام بدلو"تحریک چلائی لیکن اس وقت کے سیاسی مدبر و افلاطون متعصبانہ انداز میں ان کی بات پر کان نہ دھرتے۔ پھر آج ہر کوئی نظام کی خرابی کا رونا رو رہا ہے۔ کیوں؟ جب کہ کہا یہ جاتا تھا کہ نظام تو ایک "ڈیڈ اینٹیٹی"ہے، یہ کیسے غلط ہو سکتا ہے، غلط تو وہ ہیں جن کے ہاتھوں میں اقتدار ہے۔ میرے دانست میں طاہرالقادری کی ناکامی کا ایک سبب یہ ہی تھا کہ انہوں نے "نظام بدلو"تحریک کو بعد ازاں "حکمران بدلو"تحریک میں مدغم کر دیا۔ بلاشبہ نظام ہی ہمارے معاشرے کی جملہ خرابیوں کی جڑ تھا اور ہے۔ مزید برآں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد جنرل راحیل شریف کی کاوشوں سے "ضرب عضب"شروع کیا گیا جو نہایت کام یاب رہا۔ اسی دوران ڈاکٹر قادری کی جانب سے "ضرب امن" کے نام سے امن پروگرام کا آغاز ہوا، جس کا مقصد فروغ امن کے لئے مکمل لائحہ عمل تشکیل دینا اور امن نصاب کے ذریعے لوگوں کو ایجوکیٹ کرنا تھا۔ دہشت گردی جس کا بیج انتہا پسندی ہے، کی تلفی کے لئے نوجوان نسل میں امن کے فروغ کے لئے ضرب امن سائیکل کارواں خوش آئند ہے۔ سائکل ریلی سے عالمی سطح پر یہ باور کروانا کہ ہمارے نوجوان دہشت گردی و انتہا پسندی سے بے زار ہیں اور کسی قسم کی دہشت گردانہ کارروائی اور فعل کی مذمت کرتے ہیں۔ نوجوان نسل کو یہ احساس دلانا ہے کہ ملک میں ناانصافی، بے روز گاری اور بنیادی سہولیات کی عدم دست یابی کا حل قطعی بندوق نہیں ہے۔ ایک شہری کو یہ سہولیات تب میسر آئیں گی جب امن ہو گا، نوجوان مردہ معاشرے میں زندگی کی روح پھونک سکتے ہیں۔ پر امن نوجوان پیدا کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ملک میں فروغ امن کے لئے کسی قسم کی مسلح جدوجہد مثبت ہے نہ پیام امن کے لئے کار گر۔ متذکرہ بالا تحریک لائق تحسین اس لئے ہے کہ پاکستانی یوتھ کو امن کے لئے موبالائزکیا جا رہا ہے۔ وہ نوجوان جو انتہا پسند بن چکا ہے اور ایک خود کش بمبار کی شکل سوسائٹی میں ہے تو اس کی دینی آبیاری کی جائے اور اس کے ذہن کو امن کی راہ پر لگایا جائے، جو اس آگ میں عنقریب جھونکا جائے گا۔ میں ذاتی حوالے سے اس تحریک کو محض اس لئے پسند کر رہا ہوں کہ منہاج یوتھ نے نوجوانوں کو امن کا درس دینے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ بظاہر تو سائیکل ریلی ایک تعمیری کم تفرریحی سرگرمی زیادہ لگتی ہے لیکن اس سے بڑے احداف حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے آپریشن "ضرب عضب" کام یاب ہوا، قیام امن کے لئے "ضرب امن" تحریک بھی کام یاب ہو سکتی ہے۔