احتسابی عمل میں پیش قدمی‘ رکاوٹیں کیوں؟
پاناما لیکس کی سرگزشت جس نے عوامی غرض اور مقدور جمہوری روایات سے بے پروا دنیا بھر کے امیر اور متنازع بادشاہت کے علمبرداروں کے احتساب کا ایسا موقع فراہم کر دیا ہے کہ شرافت کا لبادہ اُوڑے اور غیر قانونی و غیر اخلاقی اعمال کے عکاس حکمرانوں کی عوام اور ملک دشمن بد اعمالیوں کی عالمی سطح پر تصدیق ہو رہی ہے۔ بظاہر من موہنے اور کرسٹل کلین کردار کے حامل مختلف ممالک کے حکمرانوں کی نشاندہی اور ان کا ’کیتا کرایا‘ لوگوں کے سامنے آگیا ہے۔ پاناما لیکس کا قہر کہ ہماری وزارتِ عظمیٰ کو علیل ہونا پڑا مگر شکر بھی کیجئے کہ ان کے علالت کے مختصر دورانیے میں جو پلاننگ ان کے پیچھے کی گئی اور شور شرابہ ہوا، سے صحت جلدی ہی بحال ہوگئی۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر جیسے مسیحا کی نصیحت اور مشورے کو پسِ پشت ڈالا اور وطن واپسی کی راہ لی۔ اس بات کا اندازہ تو ہم نہیں لگا سکتے مگر قیاس ہے کہ میاں صاحب کو کچھ اجلا اور کچھ گدلا لگ رہا ہو گا، نہ جانے ان کا ولولہ مستحکم ہوا ہوگا یا پھر ہاتھ پاؤں پھولے ہونگے۔ مگر ڈاکٹر طاہرالقادری کی زیرک رائے یہ تھی کہ وہ پہلے سے زیادہ کانفیڈینس کے ساتھ ملک واپس لوٹیں گے۔ عین ممکن ہے قوم کو ایک مزید خطاب داغ دیں مزید برآں کاغذاتی ثبوت بھی فراہم کئے جائیں گے۔ جو ہماری ناچیز رائے میں جلتی کو بجھانے کے بالکل متضاد ہوگا۔ ذکرکردہ اسکینڈل اور لیکس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آن واحد میں موجود جن جن ممالک کے حکمران اس عالمی احتسابی لہر کی زد میں آئے ہیں، وہاں جہاں جو بھی نظام ہے، ان ممالک کے عوام نے اسے ملکی مفاد، جمہوری اقدار اور معاشرے کی لازم ملزوم شفافیت سے ہم آہنگ جانا، جہاں اجتماعی اظہارِ رائے کی آزادی کی نعمت موجود ہے، وہاں عوام لیکس کے آشکار حقائق کو جمہوریت کے حق میں سمجھتے ہوئے کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔ سمجھدار حکمرانوں نے عوام کے غصے کو کم کرنے کیلئے شفافیت پر مبنی اقدام کئے حتیٰ کہ استعفیٰ تک دیا، وہ لیکس سے پیدا ہونیوالی احتسابی لہر کے خلاف مذاحمت کیلئے تیار نہیں، اسے جھٹلانے یا پھر عوامی رائے کے برعکس بھونڈے اور لغو بیان نہیں گھڑے جس سے وقتی طور آشکار حقائق کی وقتی اہمیت کو کم کیا جا سکے۔ وائے بد بختی! ہم نے یہاں بھی ڈنڈی ماری کہ پاکستان کے حکموتی حلقوں میں برطانوی پارلیمنٹ اور پاکستانی بھارتی میڈیا کی طرح پیدا ہونیوالی عالمی احتسابی لہر کی حقیقت کو کھل کر قبول نہیں کیا گیا بلکہ حسبِ سابق کوئی راستہ نہ دکھائی دینے کے باوجود روایتی سرکاری ابلاغ کی آئیں بائیں شائیں کو ہی دفاعی ہتھیار سمجھا گیا۔ یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے، جو پوری حکومت، حکمران اور انکے خاندان کے امیج کو بدھا بنا رہا ہے۔ ہم جس پُر تکلف اور تہذیبی معاشرے کا حصہ ہیں، اگر کوئی ہمارے کردار پر انگلی اُٹھائے تو ہم صفائی کیلئے تن من دھن پیش کر دیتے ہیں مگر حیرت ہے ہمارے مقتدر احباب اسے سازش گردانتے ہیں۔ کردار کی جھلک اگر حالیہ واقعات میں دھونڈی جائے تو ایک بار جنرل راحیل شریف کے کردار کو پرکھئیے گا، اپنے تین دن قبل بیان میں کرپشن اور بد عنوانی کو ناسور قرار دیتے ہوئے احتساب کی بات کرتے ہیں تو ہمارے چند صحافی بھائی، حتیٰ کہ سیاستدانوں نے یہ کہا کہ احتساب صرف سیاستدانوں کا نہیں، فوج، میڈیا، عدلیہ ہر ایک کا ہونا چاہئیے، شاید فوج کا نام لتیڑنے والوں کے منہ بند ہو گئے جب جنرل راحیل شریف نے فوج میں کرپشن میں ملوث افسران کو برخاست کیا اور کرپٹ شدہ رقم واپس لی، فوج کے احتسابی عمل سے بہت سے لوگ واقف ہیں، جانتے ہیں کہ وہاں سزائیں بھی ملتی ہیں، پورا کیرئیر داؤ پر لگ جاتا ہے مگر اس تمام احتساب کی تفصیلات میڈیا پر نہیں آتی جس کی اپنی انٹیلی جنس وجوحات ہیں، مگر خواجہ سعد رفیق کا یہ کہنا کہ فوج کا احتساب ہمارے لئے نمونہ نہیں تو انہیں یہ کہنے سے پہلے اتنا سوچ لینا چاہئیے تھا کہ انہوں نے احتساب کیلئے کیا کیا، اپنی جماعت، اپنے پراجیکٹس پیش کئے؟ آپ کے یہ اعمال کس قسم کا نمونہ ہیں، آپ ہی بتائیے۔۔۔ پچھلے ہی روز آرمی چیف نے یہ باور کرانے ( دراصل انجیکٹ کرنے) کی کوشش کی کہ کرپشن کی لعنت کا خاتمہ کیے بغیر پائیدار امن کا خواب بے سود ہے، یوں ملکی سالمیت کی خاطر سب کا احتساب ہونا لازماً ٹھہرا۔ اس تازہ ترین اعلان پر احمقوں نے یہ سوال کیا کہ جنرل راحیل شریف کس قانونی اجازت کے تحت یہ سب کہہ رہے ہیں؟ محترم و مکرمی سوالی صاحب پوری قوم کے شانے جنرل راحیل کے کاندھے کے ساتھ جڑے ہیں تو ان کو ایسے بے جا تکلف کی کیا پڑی ہے؟ اس ضمن میاں صاحب ہی نہیں بلکہ زرداری، عمران حتیٰ کہ ایم کیو ایم کی قیادت اس معاملے پر شانہ بشانہ ہے۔ وزیراعظم کیلئے پاک سر زمین پر لینڈنگ سے قبل یہ خبر کتنی شادابئ قلب اور روح کیلئے طمانیت کاموجب ہوگی کہ ضرب عضب کا دائرہ کار پورے ملک میں پھیلا دیا جائے، جہاں کہیں وزیرستان بنے ہوں یا گنجائش ہو وہاں کاروائی کیلئے آستین چڑھا لئے جائیں۔ اس میں وزیر اعظم پاکستان کیلئے خوشگوار پہلو یہ ہے کہ بالآخر ان کی اپنی منشا دہشت گردی کا تدارک ہے تو ۔۔۔ جس طرح کراچی بد امنی کو پورے ملک کی بد امنی سے عبارت کیا گیا، اگر کراچی میں امن کا مسئلہ اتنا ہی گھمبیر ہے تو ضربِ عضب کا قہر کراچی پر کیوں نہیں برستا، آخر رینجرز کو تین ماہ بعد سندھ حکومت کے متھے لگنے کی کیا ضرورت پڑی ہے؟ ان دنوں یہ افواہیں بھی گردش میں ہیں کہ راجن پور کے چھوٹو گینگ کا سفایا ہوتے ہی پنجاب کے مختلف علاقوں میں آپریشن کا آغاز کر دیا جائیگا۔ چھوٹو اپنے ساتھیوں سمیت گرفتار ہو چکا ہے، کج فہمی دور کر لی جائے کہ چھوٹو اور اس جیسے دوسرے گروہوں کو سیاسی پشت پناہی حاصل نہ ہو، بلکہ ہم اس انتظار میں ہیں کہ زیر حراست چھوٹو وہ تمام راز اگل دے تا کہ ان ناموں کو فاش کیا جا سکے، جو اس کہانی اور کردار کے ڈائیریکٹر و پروڈیوسر ہیں۔ پنجاب آپریشن میں رکاوٹ ان کلیدی کرداروں کا کانفیڈینس یونہی کھو گیا ہو گا، جو پنجاب میں فوجی آپریشن پر ننھے منّے روڑے اٹکانے کی کوشش میں تھے۔ پنجاب آپریشن میں رکاوٹ اس بات سے عیاں ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی ابتداء وزیرستان نہیں بلکہ پنجاب سے ہوئی، جب ضلع جھنگ کی کالعدم تنظیم نے پاکستان میں مذہبی قتل وغارت شروع کی۔ یادرہے نوے کی دہائی کی دہشت گردی اسی علاقے سے متصل تھی، جہاں سے دہشت گردوں کے کئی مراکز وجود میں آئے، بیرونی امداد بھی ابر کرم کی طرح برسی، یوں پلان وغیرہ کا اہتمام اور محفوظ پناہ گاہیں فراہم ہوئیں۔ امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد اسی تنظیم کے لوگوں نے فاٹا میں پاکستان تحریک طالبان کا آغاز کیا۔ ابتدائی اسلحہ اور سرمایہ انہی لوگوں نے فراہم کیا، گزشتہ دنوں ایسی اطلاعات بھی میڈیا پر رپورٹس کا حصہ بنیں کہ وزیرستان سے بھاگے ہوئے ٹی ٹی پی کے مختلف رہنما اس وقت مبینہ طور پر انہی علاقوں میں گھسے بیٹھے ہیں۔ ان حالات پنجاب میں فوجی آپریشن نا گزیر تو ہے لیکن اگر سہولت کاروں کے ضمن ہمارے چند سیاستدان ہتھے چڑھ گئے تو آپریشن کی کریڈبلٹی اور مضبوط ہو جائیگی۔ پھر شاعر ان سہمے لوگوں سے یہی کہے گا: ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا۔ اور فوج کے حامی شاعر کا یہ جملہ دہرائیں گے: ہم وفادار نہیں، تُو بھی تو دلدار نہیں! جب سہولت کاروں سے بات آگے چل نکلے تو بات سے بات اور کڑی سے کڑی ملتی جاتی ہے، اگر سپہ سالار کے بیان کو تروڑ مروڑ کر یوں کہہ لیا جائے کہ دہشت گردی سے جڑی کرپشن پر وار کیا جائیگا تو وہ سو دو سو پاکستانی جن کے نام پاناما لیکس میں شامل ہیں، ان میں کچھ ایسے بھی ہونگے جو سہولت کار کے شکنجے میں پھنستے ہیں تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاناما لیکس کے معاملات بھی ضرب عضب کا حصہ بن سکتے ہیں اور ایسا انجیکشن ہی قوم کی تشفی کر سکتا ہے۔ ہمیں حقائق تسلیم کرنے میں حجت نہیں ہونی چاہئیے کہ آج سیاسی و پارٹی منشور پرکھ لیں، گفتار و کردار میں واضح فرق نظر آتا ہے۔ پھر اگر جنرل راحیل اپنے گفتار و کردار کو عملی شکل دیں تو ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر ہمارے عوامی نمائندے عوام کے ہاتھوں ہی ذلت کیوں سمیٹتے ہیں، عوام کے ووٹ سے ہی منتخب حکمرانوں سے عوام گُو، گُو کا مطالبہ کیوں کرتے ہیں؟ ذرا سوچئیے!!!