• Breaking News

    ہمیں نوحہ نہیں نسخہ لکھنا ہے


    یاستوں کے مفادات دراصل قوم کے مفادات ہوتے ہیں، جو بعد ازاں قوم کے مفادات سے بالا تر ہو کر انسانیت کے مفاد کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ ریاستوں کے مفادات کا تعین اور موئثر لائحہ عمل کی تشکیل انسان ہی دیتے ہیں لیکن اگر یہ انسان ہی اپنے مفادات اور مستقبل کی حکمت عملی (جو بہر طور اُن کیلئے ہی ہے) ترتیب نہ دے سکیں تو اس پر کفِ افسوس ہی ملا جا سکتا ہے۔ اب تو انسان نے اپنی بقا کے نت نئے طریقے ایجاد کر لئے ہیں اور دفاعی لحاظ سے بھی مکّلف ہے۔ دورِ جدید میں جہاں سہولیات کا فقدان نہیں ہے وہیں مسائل کی بھی کمی نہیں ہے۔ مگر ہمیں اپنے مسائل کم کرنے کے ضمن میں یہ دیکھنا ہے کہ کیا بہتری کیلئے تمام میسر ترکیبات قابلِ عمل یا نتیجہ خیز ہیں کہ نہیں، یقیناً یہ ایسا نہیں کہ جیسا ہم نے تسلیم کر رکھا ہے۔ ہم میں دفاعی صلاحیت تب ہی بیدار ہوتی ہے جب ہمیں کوئی غیر معمولی صورتحالات پیش آتی ہے۔ وطنِ عزیز گزشتہ کئی دہائیوں سے ان حالات سے دوچار ہے تو کیا اب بھی ہماری دفاعی صلاحیتیں بیدار نہیں ہوئیں؟ ہم کسی واقعے کے رُونما ہونے کے بعد نوحہ لکھنے بیٹھ جاتے ہیں، کیا یہ ممکن ہے کہ نوحہ لکھنے سے پہلے کوئی خاص حفاظتی و تدبیری نسخہ لکھ سکیں؟شاعر نے حالیہ واقعے کو کچھ یوں بیان کیا: ؂ 
    لفظ ملتے ہی نہیں اظہارِ غم کے واسطے
    کس قدر ہے روح فرسا سانحہ لاہور کا ہمیں نوحہ نہیں، نسخہ لکھنا ہے

    گزشتہ روز ایسٹر کے تہوار پر عروس البلاد لاہور کو ایک بار پھر خون میں نہلا دیا گیا۔ درجنوں قیمتی جانیں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں، جن میں 30 بچے بھی ہیں۔ جس نے حملہ کیا اس نے ذمہ داری بھی قبول کر لی مگر غیرت کا پرچم لہرانے والے حسبِ سابق تصویر سے اوجھل کے اوجھل ہی رہے۔ پھول جیسے نونہالوں اور چھاؤں کی چھتری (ماؤں) کی معصومیت پر وحشت کے حملے پر وہ چیختے کیوں نہیں؟ آپ کو علم ہے یہ حملہ خود کش تھا، کیوں کیا گیا؟ جی بالکل درست جانے یہ حملہ خود کو جنت میں پہنچانے کیلئے تھا، جہاں حوریں اس بمبار کی منتظر تھیں، وہ اس سے اٹھکھیلیاں کریں اور وہ عیش و عشرت میں مست رہے۔ در اصل یہ حملہ درجنوں معصوم لوگوں کو جہنم رسید کرنے کیلئے تھا، مگر شاید اس خود کش بمبار کو قدرت کے اصول سے شناسائی نہ تھی، یوں وہ خود جہنم واصل ہوا اور درجنوں معصوم بچوں، خواتین اور نوجوانوں کو جنت کا نظارا کرا گیا، آخر شہید تا قیامت زندہ و جاوداں ہی رہتا ہے، جب کہ خود کشی کرنے والا اللہ تبارک وتعالےٰ کے بالمقابل کھڑا ہوجاتا ہے، تو ایسے اُسکی آخرت کیسے سنور سکتی ہے؟ کرب انگیز واقعہ لاہورپر ہر آنکھ اشک بار ہوئی۔ اس اندوہناک واقعے پر عام شہری یہ استفسار تو کر سکتے ہیں کہ آخر ریاست کہاں ہے؟ وہ ریاست جس کے حاکم طبقے نے اپنی حفاظت کے انتظامات تو کر لئے ہیں مگر اٹھارہ کروڑ عوام کو دعووں اور بیانات کے سہارے چھوڑ دیا ہے۔ سوال تو یہ بھی اُٹھتا ہے کہ ہماری حفاظت کرنے والے ادارے اور ہماری خفیہ ایجنسیاں کہاں تھیں۔ اطلاعات تویہ تھیں کہ یومِ پاکستان کو کچھ ہونیوالا ہے، تاہم اس روز شہروں کے داخلی اور خارجی راستوں پر کڑی نگرانی کی تو اس روز کو سلامتی اور عافیت نصیب ہوئی۔ غرض اس دن سب مطمئن ہوگئے مگر ہمارا سفاک دشمن شاید مطمئن نہ ہوا تھا۔ وہ اس تلاش میں سرگردوں رہا تا کہ کوئی مناسب موقع دیکھے اور ہاتھ دکھا جائے، پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ اسے بچوں، عورتوں اور نوجوانوں سے بھرپور پارک ملا اور 27 مارچ کو ہمارے اطمنان میں خلل محسوس ہوا، چونکہ ہماری چوکسی تو صرف 23 مارچ کیلئے تھی۔۔۔
    اسی قسم کا ایک واقعہ مون مارکیٹ میں بھی پیش آیا تھا، جس میں قیمتی جانیں لقمہ اجل بنیں۔ پے در پے اس قسم کے واقعات سیکورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے چشم کشا ہیں مگر قوم کو دعوے سے کہا جاتا ہے کہ پنجاب محفوظ ہے؟َ دہشت گردوں کا وجود ہی نہیں بلکہ تمام علاقے محفوظ ہیں تو کیا معززینِِ پنجاب حکومت نیشنل ایکش پلان محض کراچی کیلئے تھا اور پنجاب اس سے مستثنیٰ ہے؟ کیا حکومت اس بات سے بے خبر ہے ہے کہ جنوبی پنجاب کے بیشتر علاقوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانے ہیں مگر کتنی ہی تحقیقات اور رپورٹس کے باوجود حکومت پردہ ڈالے ہوئے ہے، جہاں رینجرز اور پاک فوج کو نظر ڈالنے نہیں دی جاتی، بالکہ اپنی چوکسی کا ڈھونگ رچاتے ہوئے ہفتے میں ایک دو مرتبہ گرفتاریوں کی اطلاعات بھی نشر کر دی جاتی ہیں۔ سوال پھر وہی ہے ہماری چوکس مانی جانے والی نہایت مستعد ایجنسیاں کیا کر رہی ہیں جو جنوبی پنجاب سے آنے والے دہشت گرد کا پیچھا نہیں کر سکیں اور قوم کو ایک نئے صدمے میں جھونک دیا۔
    قارئین کرام، دہشت گرد خواہ ملک کے کسی بھی حصے میں ہوں، ان کے خلاف موئثر کاروائی ناگزیر ہے، جیسا کہ میں نے ابتدائیہ میں کہا ہمیں بعد از واقعہ نوحہ نہیں لکھنا بلکہ قبل از سانحہ نسخہ لکھنا ہے۔ ہمیں ہر وہ تدبیر اور ترکیب عمل میں لانا ہے جو ہمارے آنے والے کل کو امن سے معمور کر سکے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں مفاد پرستی، نظریاتی کنفیوژن اور مصلحت اندیشی نے دہشت گردی ارو انتہا پسندی کے معاملات کو پیچیدہ اور گھمبیر بنا دیا ہے۔ وہ کام جو دس برس پہلے شرع کرنا تھے، اسے اب شروع کرنے کیلئے اجلاس بلائے جا رہے ہیں اور موثر فیصلوں کیلئے کمر کس رہے ہیں۔ سانحہ لاہور کے بعد ایک بار پھر ہمیں یہ کہنے میں تامل نہیں کہ دہشت گردوں کا نیٹ ورک فعال ہے اور اس بات سے پہلو تہی نہیں کی جاسکتی کہ دہشت گردوں کا محض ایک پہلو نہیں ہے بلکہ یہ کثیر الجہتی ہے۔ ملک میں صرف تحریک طالبان پاکستان ہی سرگرم نہیں بلکہ متعدد تنظیمیں اور دہشت گرد گروہ ملوث ہیں، ان کے تنظیمی ڈھانچے، طریقہ واردات اور مقاصد بھی کسی قدر جدا جدا ہیں۔ غرض دہشت گردوں کے خلاف نبرد آزمائی کوئی آسان ٹاسک نہیں ہے، یہ تو چومکھی لڑائی ہے، سو دہشت گردوں کے خلاف آپریشن تو ہر صورت ہونا چاہئیے مگر ایک آپریشن تعلیمی نصاب کی اپ ڈیت اور اپ گریڈ کیلئے بھی لازمی ہے۔ ملک میں متعدد جماعتیں ایسی ہیں جو نظریاتی کنفویژن پھیلانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر ہی ہیں۔ سبحان اللہ یہ جماعتیں یا قوتیں چھپی ہوئی بھی نہیں ہیں بلکہ آشکار ہیں اور دیدہ دلیری سے اپنے ملک دشمن اور انسانیت دشمن ایجنڈے پر کار فرما ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے ان کے خلاف اعلان جنگ کون کرے گا اور کب کرے گا۔ پاکستان تو گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصہ میں اپنے ہمسائے کے ساتھ تعلقات کی نوعیت طے نہیں کر سکا۔ اب تو ہمسایوں پر بھی شکوک و شبہات کئے جا رہے ہیں، جہاں ایران کے بارے تحفظات اور دوسری طرف افغانستان بھی ہمارے دوستوں میں شامل نہیں ہے پھر انڈیا کو تو ازلی دشمن کا نام دیا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات بھی ڈھکے چھپے نہیں، جنوبی ایشیاء میں صرف نیپال اور سری لنکا ہی وہ دو ملک سامنے آتے ہیں جن کے ساتھ ہمارے دوستانہ تعلقات اسطوار ہیں۔ یا پھر پائیدار دوستی کی مثال عوامی جمہوریہ چین دوستی کا دم بھرتا ہے۔ دہشت گردی کا خاتمہ کرتے ہوئے ان خارجہ عوامل کا رخ بھی درست کرنا لازمی ہے، موجودہ حالات کی درستی کی ضمانت یہی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ جیتنے کیلئے پورے ملک میں یکساں کاروائیاں کی جائیں، آپریشن کرتے ہوئے اس حوالے سے تمام ابہام اور کنفیوژن کو بہر طور دور کرنا چاہئیے۔