• Breaking News

    یہ درندگی اور وحشت آخر کب تک؟


    شاید ہم انسانی معاشروں کی جہالت کے ادوار سے ابھی تک نہیں نکلے، ان ادوار کا تذکرہ کرتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ اسلام کی غرض وغایت پر غور کریں تو بعثت رسول ؐ کا ایک بڑا مقصد یہی نظر آتا ہے کہ تقدس مآب حوا کی بیٹی کو وہ عزت و توقیر دی جائے، جو کاتب تقدیر نے اس کے حصے میں لکھی ہے۔ رسول پاک ؐ کی محفل میں ایک نو مسلم صحابی نے جب زمانہ جہالیت میں خود اپنے ہاتھوں اپنی سگی معصوم بیٹی کو زندہ درگور کرنے کی کہانی سنائی تو بیٹیوں سے محبت کرنے والے رسول ؐ کی آنکھیں چھلک پڑیں۔ محفل میں شریک سب ہی صحابہ آب دیدہ ہو گئے۔ اسلام نے بچی اور عورت کو عزت و توقیر دیتے ہوئے یہ نہیں دیکھا کہ وہ شاہ کی بیٹی ہے یا گدا کی۔۔۔! براعظم پاک و ہند کے مسلمان چونکہ ساڑے آٹھ سو سال تک اس سرزمین پر حکمرانی کرتے رہے لہٰذا وہ ہندو معاشرے سے اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں تھے، لیکن اس کے بین بین یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندو معاشرے کی بہت سی فرسودہ روایات ان کے اسلامی باطن میں ازخود در آئیں۔ جن میں سے ایک یہ بھی کہ عورت کا احترام اس مخلوط معاشرے میں بھی کم سے کم درجے کا تھا۔ پاکستان بنا تو نئے مسلم معاشرے میں یہ باتیں پہلے سے موجود تھیں۔ امراء اور متوسط طبقے کی عورتیں محنت کشی کی سزا وار نہیں ہوتی تھیں جب کہ غریب اور ادنیٰ طبقے کی بچیاں اور عورتیں گھریلو خادماؤں سے لے کر کھیتوں اور کھلیانوں تک میں مشقت کرتی ہوئے نظر آتی تھیں۔ قیام پاکستان کو سات دہائیاں گزر گئیں لیکن یہ صورت حالات جوں کی توں ہے۔
    پاکستان میں گھریلو ملازمین پر تشدد کے بے پناہ واقعات ہیں، ملازم یا ملازمہ چند ٹکوں کی نوکری کیلئے پٹتے ہیں، دھتکارے جاتے ہیں اور چند ہزار میں بک بھی جاتے ہیں۔ ملازمین کے ساتھ غیر انسانی رویہ اختیار کیا جانا معمولی بات ہے ۔ یقین جانیئے معاشرے میں ایسے کردار جو ان غیر انسانی افعال کا مرتکب ہوتے ہیں، شرم کا باعث ہیں۔ انسانیت شرما جائے لیکن انہیں حیا نہ آئے۔ اسلام آباد میں طیبہ نامی بچی جو ایک ضلعی و سیشن جج کے گھر ملازمہ تھی کو مبینہ طور پر بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ کم سن طیبہ جس کی عمر ابھی صرف دس برس ہے کو ایسی اذیت سے دوچار کیا گیا کہ دل دہل جائے۔ اسے معمولی نافرمانی پر اس طرح سزا دی گئی کہ اسکے ہاتھ جلتے چولہے پر رکھ دئیے۔ محض اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ معصوم طیبہ کے منہ پر گرم ڈوئی بھی ماری گئی اور یہ سارا فعل مبینہ طور پر راجہ خرم علی خان کی اہلیہ نے انجام دیا۔ کیا ہمیں یا حکمرانوں کو اس بات کا ادراک نہیں، آئین پاکستان کہتا ہے کہ پانچ سے سولہ سال تک کی عمر کے بچوں کیلئے تعلیم لازمی اور مفت ہو، جس کا سارا انتظام ریاست کرے گی۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی ریاست پر ہی عائد ہوتی ہے وہ عورتوں اور بچوں سے ایسے کام نہ لئے جائیں اور ایسی مشقت پر نہ اکسایا جائے، جو ان کی عمر اور جنس کے اعتبار سے غیر مناسب ہو۔ تو پھر چودہ سال سے کم عمر بچوں سے کسی قسم کی مشقت لینے کی بھی خاص طور پر ممانعت ہے۔ مزید برآں ان قاعدوں کی خلاف ورزی پر مختلف سزائیں تجویز ہیں۔ ستم ظریفی کہ یہ اچھی اچھی باتیں محض آئین میں لکھی ہیں اور جو کچھ عملاً معاشرے میں ہو رہا ہے وہ مختلف ہے۔ متذکرہ قصے کی شروعات یہاں سے ہوتی ہیں کہ طیبہ کو اس کے والدین نے اپنا قرض اتارنے کے لئے راجہ خرم علی خان کے گھر رہن پر رکھ دیا تھا۔ یہ رقم کوئی لاکھوں میں نہیں بلکہ محض اور محض اٹھارہ ہزار جو ہماری گڈ گورننس کی دعوے دار حکومت کی مقرر کردہ ایک مزدور کی ماہانہ تنخواہ کے برابر ہے۔ اور اٹھارہ ہزار کی وجہ سے ہی بیچاری طیبہ جس کی ابھی گڑیوں، پٹولوں سے کھیلنے کی عمر تھی اور اسے ایک گھر میں ملازمت اختیار کرنا پڑی تا کہ وہ والدین کے ذمے جو قرض ہے ، چکا سکے۔ اس واقعے کا ڈراپ سین یہ ہوا کہ ملزمان نے تشدد زدہ طیبہ کے والدین کو مبینہ طور پر چند ہزار روپے دے کر راضی نامہ کر لیا۔ اور صلح صفائی سے کام نمٹ گیا اور یہ موقف اختیار کیا گیا کہ بچی سیڑیوں سے گری نہ کہ جلایاگیا جبکہ میڈیکل رپورٹ میں جلانے کے شواہد ملے۔ اس تمام معاملے میں جب موصوف جج نے خود کو مکھن سے بال کی طرح نکال لیا تو میڈیا نے اس واقعے کو اجاگر کیا۔ اور انصاف کیلئے آواز بلند کی۔ پاکستان میں ناانصافی نے معمولی طاقتور کو طاقتور بنا دیا ہے۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ مظلوم کا کوئی پرسان حال نہ رہااور معاشرے میں محض اذیت اٹھانا اس کا مقدر بن گیا۔ بھلا ہو چیف جسٹس ثاقب نثار کا جنہوں نے چیف جسٹس بنتے ہی اپنا پہلا سوؤ موٹو ایکشن مذکورہ واقعے پر لیا اور تا دم تحریر چوبیس گھنٹوں میں رجسٹرار سے جواب طلب کر لیا۔ یاد رہے ایسے واقعات اب معمول ہیں، کم سن بچوں کو گھریلو ملازم رکھنا ویسے بھی ملکی اور بین الاقوامی قوانین کے تحت ایک جرم ہے۔ مغربی ممالک میں یہ روایت دم توڑ چکی مگر ہمارے ہاں ابھی قائم ہے۔ پارلیمنٹ ، سیاسی جماعتوں، اعلیٰ عدلیہ اور سماجی تنظیموں کو اس واقعے پر کان کھڑے کرلینے چاہئیں اور تحفظ نسواں بل، خواتین پر تشدد کے لئے قانون سازی کی اسی طرح کم سن بچوں سے مشقت لینے پر بھی ایسی تجاویز پر غور کریں۔ گھریلو ملازمین، خاص طور پر کم سن بچوں پر تشدد ہمارے معاشرے پر ایک بد نما داغ ہے یہ ظالمانہ سماجی رویہ اب تبدیل ہونا چاہئیے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ حوا کی بیٹی کے لئے ہر نیا دن عقوبت خانے کے ظلم کی طرح ہے۔غریب اور نادار طبقے کی یتیم بچیاں سڑکوں پر رل رہی ہیں۔ یہ کبھی تو شیطان صفت انسانوں کی ہوس کا ایندھن بن جاتی ہیں تو کبھی اشرافیہ کے گھروں میں کام کاج کرتے ہوئے اپنی عزت و عفت گنوا بیٹھتی ہیں۔ یہ واقعات روز مرہ کی بنا پر ہو رہے ہیں۔ اخبارات میں خبروں کی صورت چھپتے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کی بریکنگ نیوز میں افشا ں ہوتے ہیں لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ نہ کوئی مربوط قوانین بنائے جاتے ہیں اور نہ کوئی ضابطہ اخلاق مرتب ہوتا ہے۔ حد یہ ہے کہ گھریلو کام کاج کی مشقت میں زندگی گزارنے والی ان بچیوں کے لئے کوئی سایہ عافیت یا انصاف کا دروازہ تک نہیں ہے جہاں یہ ابتلا کے وقت اپنا دکھڑا سنا سکیں۔ ساحر لدھیانوی نے کہا تھا: سناخوان تقدیس مشرق کہاں ہیں۔