• Breaking News

    کپتان کا safe exit‘ دھرنا ہار گیا؟


    لائے اس بت کو التجاکرکے
    کفرٹوٹاخداخداکرکے
    سیاسی کشمکش تقریباً ختم ہو چکی، بالآخر پانامہ پیپرز کا بوجھ سپریم کورٹ نے اپنے کندھوں پر اٹھانے کی سعی کر لی ہے اور اب عدالت عظمٰی تحقیقاتی کمیشن بنائے گی۔ تا دم تحریر یہی پیش رفت ہوئی ہے۔ عمران خان جو پہلے ہی یو ٹرن لینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، اس بار بھی safe exit لے کر سپریم کورٹ کے دیئے گئے لولی پاپ پر خوش ہیں۔ اپنے ہزاروں کارکنان اور پرویز خٹک جیسی لاغر لیڈر شپ کو امتحان میں ڈال کر، دو تین بندوں کو مروا کر، عمران خان نے "یوم تشکر"منایا۔ پیپلز پارٹی کے سعید غنی نے تو کہا ہے کہ عمران خان کو یوم تضحیک منانا چاہئیے تھا۔ اس رائے سے اختلاف ممکن اس لئے نہیں کہ عمران خان نے واقعتاً اپنے سپورٹرز سے مذاق کیا ہے۔ اپنی مات اور ہار کو سامنے دیکھ کر ایسا زبردست یو ٹرن لینا عمران خان جیسے لیڈر کو ہی جچتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عوام عمران خان کی ہر جان دار تحریک کا ساتھ کیوں دے رہے ہیں، ان کے دو بندے مر جائیں اور ادھر کپتان یوم تشکر منائیں؟؟؟ کیا یہ لیڈر شپ ہے یا گیدڑ شپ جو ہمیشہ اپنے بچ بچاؤ کا راستہ کھلا رکھتی ہے۔
    ہم اگر یہ کہتے ہیں کہ عمران خان کا دھرنا قبل از وقت ہی فلاپ ہو گیا تھا تو یہ منطقی اور استدلالی بات ہے۔ کپتان نے دس لاکھ لوگوں کی آمد کا عندیہ دیا، مگر تمام لیڈرشپ کو بنی گالا میں اپنے پاس بٹھائے رکھا، ادھر عوام منہ تکتے رہے کہ آخر کریں تو کیا کریں، رکاوٹیں عبور کریں تو کیسے؟ وزیراعلیٰ خیبر پختون خواہ پورے صوبے سے محض چند ہزار لوگوں کا قافلہ لے کر نکلے جو برہان انٹرچینج سے ہی واپس لوٹ گیا، یعنی دعووں کے برعکس ایسی بری مات مقدر بنی کہ ہنسی آتی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک ٹی وی انٹرویو میں پرویز خٹک نے ڈاکٹر طاہرالقادری پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ اس کی جماعت نہیں کہ چودہ بندوں کا حساب نہ لے سکے، ہمیں حساب لینا آتا ہے اور ہم وزیراعظم کی تلاشی کے لئے اسلام آباد ضرور پہنچیں گے۔ شاید یہ ان کی غلط فہمی کہیے یا خوش فہمی تھی، جو انہیں لے ڈوبی۔ طاہرالقادری کے چاہنے والوں نے پرویز خٹک کے اس جملے پر کہا کہ ہم تو ایک ہی دن سب رکاوٹیں توڑتے ہوئے اسلام آباد پہنچ گئے تھے مگر تیرا کیا ہوا کالیا۔۔۔ آپ برہان بھی عبور نہ کر سکے۔ اگر آپ اپنے بیان پر عوامی تحریک سے معافی مانگیں تو ہم آپ کو سلامتی سے اسلام آباد پہنچانے کا بیڑا اٹھاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان اکلاپے کا شکار ہیں۔ ڈاکٹر قادری نے آخری دم تک اپنے فیصلے کو مؤخر کیا، شاید یہ ان کی دانش مندی تھی کہ ساتھ نہ دیا ورنہ وہ بھی عمران خان کی طرح حدف تنقید بنتے۔ طاہرالقادری نے عمران خان کے یوم تشکر منانے کے فیصلے پر انا للہ وانا الہ راجعون پڑھ کر کہا کہ میں اس کے علاوہ کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھتا۔ نہ جانے عمران خان خوش کس بات پر ہیں۔ لیکن شاید یہ خوشی محض safe exit ملنے کی ہے یا پھر خورشیئد شاہ کے بقول فیس سیونگ کی ہے۔ عمران خان اور ان کی جماعت نظریاتی نہیں جب کہ طاہرالقادری اور ان کی جماعت مکمل طور پر نظریاتی ہے۔ معروف کالم نگار سلیم صافی نے بھی گزشتہ دنوں ایک منطقی بات کہی تھی کہ عمران خان ہزار سال بھی تحریک چلاتے رہیں ڈاکٹر قادری کے بغیر اسے کامیاب نہیں بنا سکتے۔ طاہرالقادری کا پیروکار سینے پر گولی کھا سکتا ہے جب کہ جہانگیر ترین کا مرید ڈنڈہ بھی نہیں کھانے کو تیار نہیں۔ تو عمران خان کیسے قادری کے بغیر معرکہ لڑنے نکلے تھے اور جیت کی امید سے۔ یہ بات بھی نوٹ کی گئی ہے عمران خان جنگ اکیلے ہی لڑنا چاہتے ہیں جس سے پیپلز پارٹی سولو فلائٹ کا تاثر لیتی ہے۔ لیکن وہ اس کی سقط نہیں رکھتے، عمران خان باقی لیڈر شپ سے بھی مایوس دکھائی دیئے کہ وہ ہجوم اکھٹا کرنے کے احداف پورے نہیں کر پائے، جس کی واضح مثال پورے کے پی کے سے چند ہزار لوگ ہی قافلہِ وزیراعلیٰ کا حصہ بنے۔ یہ تو اچھا ہو گیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے عمران خان کو اس بحران سے بچا لیا ورنہ شاید یہ ان کا آخری انجام ثابت ہوتا۔ عمران خان کی موجودہ سیاسی پوزیشن پر یہی کہا جا سکتا ہء کہ "گالیاں کھا کر بدمزہ نہ ہوئے" اور یوم تشکر کا اعلان کر ڈالا۔
    قارئین، اگر عمران خان نیا پاکستان اور تبدیلی جیسے نعروں پر ہی مصر ہیں تو انہیں اپنی حکمت عملی تبدیل کرنا ہو گی ورنہ سیاسی موت ان کا مقدر ہے۔ شیخ رشید نے ایک خوبصورت بات کہی کہ عمران خان بنی گالہ سے نکل کر عوام میں اتریں تا کہ انہیں کچھ "بہتر" محسوس ہو۔ اگر لیڈر ہی عوام کے شانہ بشانہ نہیں تو وہ مردہ ہو جائیں گے، ان کے ذہن میں طرح طرح کے سوال گردش کریں گے کہ کیا ڈنڈا کھانے کے لئے ہم عوام ہی ہیں یا ہمارے دکھ میں ہمارا لیڈر بھی شریک ہے؟ خان صاحب تلخیاں شئیر کرنے سے کم ہوتی ہیں۔ تبدیلی و انقلاب کے راستے آسان و پر آسائش نہیں ہوتے۔ یہاں ماؤزے تنگ، لینن اور کمال اتا ترک یاد آتے ہیں، جنہوں نے انقلاب کے لئے گھر بار لٹائے، ہزاروں میل مسافت کی۔ نتیجتاً ان کے پاس ایسے لوگوں کی کھیپ پیدا ہوئی جنہوں نے اپنے عوام، نسلوں اور قوموں کا مقدر بدل دیا۔ ایسے سیاسی نظریات کہ جنہوں نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ ان تمام حالات کے بعد اگر سپریم کورٹ ان ایکش ہو گئی ہے تو خدارا جج صاحبان سے یہی گزارش ہے وہ اس کیس کو منطقی انجام تک پہچا کر دم لیں۔ ہمیشہ کے لئے کرپشن اور پانامہ جیسے ابواب کو بند کردیں۔ علاوہ ازیں ملک کو صحیح ڈگر پر چلنے کا موقع فراہم کریں۔ مزید بگاڑ پیدا ہونے سے ملک میں دراڑیں پڑنے کا خدشہ ہے۔ اب جو بھی فیصلہ ہو ریاست اور عوام کے حق میں ہو۔ ادھر عمران خان اپنے کارکنوں کو مبارکباد دیں اور ان کی جدجہد کو سراہیں۔ حکومت کے لئے ضروری بات یہ ہے کہ وہ احتساب کے عمل میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے، ملک میں بادشاہت کا تاثر نہ دے بل کہ جمہوریت کے لئے کاوشیں کرے، نئی پیدا ہونے والی صورت حالات کو کسی کی شکست سے یا ہار سے تعبیر نہ کرے۔ درحقیقت اب بھی جو جیت نظر آ رہی ہے وہ عوام، سیاسی دوراندیشیوں اور عدلیہ کی آزادی کی جیت ہے۔اسلام آباد لاک ڈاؤن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اس صورت حالات میں کپتان کا سیف ایگزٹ ضرور مگر یہ اعتراف بھی کریں کہ دھرنا ہار گیا ہے اور امن کی فتح ہوئی ہے۔ 

    No comments