سرِ کرب شعری سفرکا ماجرا
گزشتہ روز راولپنڈی آرٹ کونسل میں ایک ایسی تقریب کا انعقاد ہوا، جہاں بڑے لوگوں میں ہم چھوٹوں کو بھی شرکت اور حصہ لینے کا شرف نصیب ہوا۔ یہ تقریب جو بادی النظر میں ایک کتاب کی تقریب رونمائی تھی، لیکن راول دیس کے جانان شہر راولپنڈی کے دانشوروں، قلم کاروں اور سیاستدانوں کے ملاپ کا حسین امتزاج تھا۔ نوجوان شاعر، فورتھ ائیر کے ہونہار طالب علم کا اولین شعری مجموعہ "سرِ کرب" آنے پر اس کی تقریب پزیرائی پیاس (پنڈی اسلام آباد ادبی سوسائٹی) کے زیر انتظام اور راولپنڈی آرٹ کونسل کے اشتراک سے منعقد کی گئی ۔
محمد صداقت طاہرؔ اپنے اساتذہ کا تفاخر ہے۔ اس نے شاعری کیلئے رانوئے ادب طے کیا۔ صداقت طاہر خوش قسمت ہے کہ اس کے شاعری کے امکانات اساتذہ نے ابتدا ہی میں بھانپ لئے تھے، شاعری میں نوجوان شاعر کا سفر انتہائی حوصلہ افزا ہے۔ اس شاعر کی خوبصورت بات جو دل کو لگی کہ صداقت طاہر اپنے اردگرد بکھرے ہوئی معاشرتی اور تہذیبی موضوعات کا انتخاب کرتا ہے اور شعر کہتے ہوئے اپنی تمام تر تخلیقی اور تجدیدی صلاحیتوں کے زیر اثر قلم اُٹھاتا ہے۔ خیالات میں ڈوب کر لکھنے سے اس کی محویت اور قوت عکس بندی کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ صداقت طاہرؔ کا نظامِ فکر، موضوعات سے لے کر شاعری کے فن کا مکمل احاطہ کرتا ہے۔ نوجوان شاعر کا شاعری میں مجاہد بتاتا ہے کہ وہ جہد مسلسل کی بھٹی سے ایک دن ضرور کندن بن کر نکلے گا۔ شعری شگف اور فکری ارادت سے اس کا رشتہ انتہائی گہرا معلوم ہوتا ہے۔
تقریب کے روح رواں سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار عتیق احمد خان تقریب کی صدارت کر رہے تھے۔ سردار عتیق خان یوں تو عظیم باپ کے بیٹے ہیں مگر کشمیر کی آزادی کے حوالے سے انکی کوششیں اور کاوشیں انہیں عوامی ہونے کی سند فراہم کرتی ہیں۔ روایتی سیاستدان سے ہٹ کر ان کی اپنی شخصیت ادب کے قریب قریب ہے اور تبادلہ خیالات میں عام سیاستدان نہیں بلکہ باذوق شخصیت ہیں۔ اپنے صدارتی خطبے میں انہوں نے محفل میں سحر انگیزی پیدا کردی۔ انہوں نے محمد صداقت طاہرؔ کی کتاب"سرِکرب" کے نام کے حوالے سے کہا کہ یہ کتاب پڑھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ شاعر نے اپنے کرب کی تمام تر کیفیات اس میں شعر کی شکل میں جڑ دی ہیں۔ جواں سال شاعر صداقت طاہرؔ کے مستقبل میں ترقی کے امکانات روشن دکھائی دیتے ہیں، انہوں نے کہا وہ مشق سخن کے مراحل سے گزرتے ہوئے بھی کئی اچھے شعر تخلیق کر چکا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر مقصود جعفری اور ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی مہمان خصوصی تھے۔ ڈاکٹر مقصود جعفری نے تقریب کے صدر سردار عتیق خان صاٖب کے ولد گرامی سردار قیوم خان (مرحوم) کے بارے میں ہمہ جہت گفتگو کی اور انکی سیاسی و سماجی خدمات کو زبردست خراج تحسین پیش کیا اور انکا ذکر خیر کیا۔ "سرِکرب" کے حوالے سے ڈاکٹر مقصودجعفری نے کہا میں اس نوجوان کے بارے جتنے بھی محبت اور داد تحسین کے کلمات ادا کروں کم ہوں گے کہ اس نے اپنے ہم عصر دوسرے طالب علموں کے برعکس خود کو تخلیقی کردار میں ڈالا اور شاعری میں اس کی فکری ہم آہنگی اور تخیل قابل تعریف ہے۔ ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی نے شخصیت اور کتاب کے حوالے سے پر مغز گفتگو کی، سیاسی تناظر میں انہوں نے بعض گہری باتیں کیں جو ماضی اور حال کے سیاسی ماحول اور نوجوانوں کے عملی کردار کے حوالے سے اپنی اہمیت رکھتی ہیں۔ انہوں نے کہا صداقت طاہرؔ کی شاعری میں مقصدیت کا عنصر پایا جاتا ہے، بے سود اور بے ذائقہ شعر اس کی سوچ کا انتخاب نہیں ہیں۔ انہوں نے نوجوانوں کے حوالے سے یہ بھی کہا کہ یہ نوجوان قوم کا سرمایہ ہیں یہ ملک کا اور ہمارا سرمایا ہیں۔ یہ ہمارے لگائے ہوا پودے ہیں جو مستقبل میں تنا آور درخت بنیں بنیں گے اور اس کے ثمرات سے زمانہ فیض یاب ہوئی۔
تقریب میں سب سے خوبصورت باتیں صداقت طاہر کے دوست اور ہم جماعت رفیق شیر علی نے کیں اور اپنے قابل دوست سے اپنی محبت کا اظہار اور عام زندگی میں صداقت طاہر کی شخصیت کے حوالے سے زبردست گفتگو کی اور لمبا۔۔۔ قصیدہ پڑھا۔ صداقت طاہرؔ کے والد سٹیج پر بیٹھے ایک عظیم باپ محسوس ہو رہے تھے کہ جن کے پدرِ شفقت نے بیٹے میں صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا حوصلہ اور ہمت فراہم کی۔ "سرکرب" کی اس تقریب میں ہم نے بھی لب کشائی کی اور صداقت طاہر کی کاوش کو سراہا۔ ایک نوجوان ہونے کے ناطے مجھے یہ اعتراف کرنا پڑا کہ صداقت طاہرؔ عصر حاضر کے دوسرے نوجوانوں سے ذرا ہٹ کر چلا اور اپنی توانائیاں مثبت سمت صرف کرتا رہا۔ صداقت طاہرؔ کے استاد سے کہا کہ وہ خوش نصیب ہیں کہ اس درخت کی شاخ پھل دار ہے۔ تو کچھ ہی دیر بعد ان کے استاد محترم باقر وسیم قاضی کو بھی سٹیج پر مدعو کیا گیا تو انہوں نے اپنے عزیز شاگرد سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے خبر نہیں میرا شاگرد عزیز صداقت طاہرؔ فی الوقت تارا ہے، چراغ ہے یا جگنو ہے مگر ایک بات طے ہے کہ خالق نے اسے وہ روشنی عطا کی ہے کہ جو بڑھ کر چہار دانگ عالم میں اجالا کرنے کی سکت رکھتی ہے۔
اس تقریب کے دیگر شرکاء میں کالم نگار آفتاب ضیاء، محمد شاہد رفیق سی ای او ریڈ فاؤنڈیشن، پروفیسر اشتیاق احمد قمر پرویز اختر و دیگر موجود تھے۔ تقریب کے دولہا اور وجہ محفل صداقت طاہرؔ نے اپنی زبان سے اظہار تشکر ہی ادا کیا اور عاجزی میں اپنے تمام رفقاء، اساتذہ اور نیک چاہنے والوں کو شکریہ کے الفاظ میں خراج پیش کیا۔ صداقت طاہر نے سردار عتیق خان صاحب کا بھی شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اپنی مصروفیات کے برعکس میری حوصلہ افزائی کیلئے کشمیر سے راولپنڈی آنا قبول کیا۔
اس تقریب کا حسن یہ تھا کہ اس میں نہ صرف جڑواں شہروں کے لکھاری یا سیاستدان موجود تھے بلکہ دور دراز سے آئے ہوئے مہمان بھی شریک تھے اور صداقت طاہر کے رشتہ دار عزیز اقارب اپنے بھائی، بیٹے کیلئے محبت، خلوص کا پیغام لائے تھے۔ صداقت طاہر کو میری طرف سے باردیگر مبارک باد اور نیک تمنائیں کہ جیسے وہ کرب کی کیفیت میں زندگی کرتے کرتے کبھی مایوس نہیں ہوا اور اس انتظار میں رہا کہ کب کرم کا کوئی دریچہ وا ہو اور اس سے حالات سدھر جائیں۔ جسے اس نے شعر میں یوں لکھا کہ:
جاں اسی کرب میں گزری ہے کہ طاہرؔ مجھ پر
اس کے دو چار زمانے میں کرم ہو جاتے
دعا ہے اس اچھے انسان کیلئے کہ اس کا سفر جاری و ساری رہے اور اس میدان میں نام ضرور پیدا کرے۔