بہت ہمدردیاں کیں، ایک قدم آگے بڑھیں
کہتے ہیں، حد سے زیادہ خوشی اور حد سے زیادہ دکھ انسان کو اکثر خاموش رہنے پر مجبور کر دیتے ہیں اوراس کیفیت کو بیان کرنے کے لئے کوئی لفظ نہیں ملتا۔ 10 جنوری کو بھی کچھ ایسا ہی ہوا، ٹیلی وژن سکرین پر ایسی خبریں پہلے بھی دیکھیں، جہاں نو عمر بچیوں، بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے والے انسان نما حیوان انہیں قتل کر دیتے۔ اس بار7 سالہ قصور کی زینب خبر بنی، جسے درندہ صفت انسان نے زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد موت کے گھاٹ اتارا اور بعد ازاں کوڑے دان میں پھینک دیا۔ غالباً گزشتہ سال قصور میں ایسے11واقعات رپورٹ ہوئے اور اس نوعیت کا سال نو کا پہلا واقعہ ہے۔ یقیناً ایسے واقعات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو گی، چونکہ لوگ رپورٹ نہیں کرتے۔ قصور پر پہلے ہی سات سو سے زائد بچوں کے جنسی سکینڈل کا بوجھ ہے۔ لیکن اس بڑے واقعہ کے بعد بھی کوئی اقدامات نہ کئے گئے کہ ایسے واقعات کی روک تھام ہو۔ اس مرتبہ کچھ تسلی بخش صورتحال اس لئے سمجھتا ہوں کہ کم از کم پہلی پرتبہ ہی سہی لیکن لوگ ایسے واقعات کے تدارک کے لئے ہنگامی اقدامات چاہتے ہیں جس کے لئے احتجاج ہوئے۔ اس جرم کا ارتکاب کرنا قصور والوں کے لئے شاید ایک رجحان بن گیا ہے۔ ایسے مجرموں کو اب سرعام لٹکانے کے مطالبات بھی میرے نزدیک جائز ہیں۔ کیونکہ سزاسخت اور دردناک ہونی چاہئے، ٹارچر کیا جانا چاہئیے کہ آئندہ کوئی حیوان معصوم حوا کی بیٹی کی جانب بڑھے تو اسے وہ منظر یاد آجائے۔ ایسے میں لوگ عبرت پائیں گے۔
قارئین، آپ کو یاد ہے جب ایران میں 7 سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کے بعد اسے قتل کر دیا گیا تھا تو ایران نے اس درندے کو سرعام پھانسی دی تھی اور لوگوں نے اس سزا کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور اس کے بعد سے آج تک ایسی نوعیت کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا۔ تو کیا مشکل ہے کہ ایسی مثال پاکستان میں بھی ایک بار قائم کی جائے اور نشان عبرت بنایا جائے۔ تا کہ کوئی وحشی و درندہ ہماری معصوم کلیوں کو کچل نہ سکے۔ کیونکہ سرعام پھانسی کم وقت میں فوری اور دیرپا حل ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں اس مسئلے کی تہہ تک بھی پہنچنا ہے کہ آخر کیا بنیادی مسئلہ ہے ایک انسان اس قسم کے گھناؤنے فعل کا ارتکاب کرتا ہے؟ آخر کوئی جذباتی، نفسیاتی، ذہنی یا جسمانی پریشانی اور خلل تو ہو گا، جو کسی دوسرے انسان یا اس کے خاندان کو تکلیف دے کر خود کو مطمئن کرتا ہے۔ وگرنہ عام حالت میں کوئی انسان ایسا ہرگز کرنہیں کر سکتا۔ جرم کی جڑ تک پہنچنا اور اس کو تلف کرنا ہو گا۔
اگر ایسے جرائم کا ارتکاب کم علمی کے باعث ہوتا ہے تو ہمیں زیادہ سے زیادہ سکول قائم کرنے ہونگے اور لوگوں کو تعلیم دینا ہوگی۔ اگر جرم کا ارتکاب بے روزگاری کے سبب ہے تو روزگار کے مواقع اور پیشہ ورانہ مہارتیں دینا ہونگی۔ اگر مایوسی یا ذہنی تناؤہے تو اس کو بھی اسی اعتبار سے ایڈریس کرناہوگا۔ ہم ایسی نسل کے متحمل نہیں ہو سکتے جو ہمارے بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنائے۔ بہت ہو چکا اب بند ہونا چاہیئے۔
ایک اور بات کہ جب بھی کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے تو قوم کے تمام لوگوں کی اجتماعی آزاد قوتِ ارادی احتجاج کی صورت سامنے آتی ہے، یکا یک سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا پر ابال آتا ہے اور ہم اگلے دن سب بھول جاتے ہیں۔ لیکن اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہمیں ایک قدم آگے برھنا ہے کیونکہ اجتماعی ہمدلی اور ہمدردی ناکام رہی ہے اب عملاً کچھ بہتری کی طرف قدم بڑھانا ہے۔
ریاست کے ذمہ یہ بھی ہے کہ ایسے جرائم کا تدارک کرے اور پولیس کو بھی تربیت دینی چاہیئے۔ ایسی حالت میں کیسے نمٹا جائے۔ افسوس کہ پنجاب پولیس نے بہ زو بازو اس احتجاج کو خاموش کرنے کی کوشش کی، جو زینب کے ساتھ زیادتی اور بہیمانہ قتل کے لئے برسر پیکارتھے۔ دو احتجاج کرنے والے شہید ہوئے جب پولیس نے فائر کھولے۔ یہ غضب ہے اور ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ اس سے قبل بھی متعدد ایسے واقعات سامنے آئے ہیں۔ ریاست کو اپنے عمل پرکھنے اور جانچنے کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ریپ کرنے والوں کا خاتمہ کیا جائے اور حقیقت سامنے لائی جائے، اس کے خلاف اٹھنے والی آواز کو دبانا خود شریک جرم بننے کے مترادف ہے۔ پولیس کو سخت تربیت اور تعلیم دینے کی ضرورت ہے کہ احتجاج سے کیسے نمٹا جائے۔ فائر دشمن پر کھولے جاتے ہیں اپنوں سے بیٹھ کر بات کی جاتی ہے اور تعاون برتا جاتا ہے۔ شاید یہ ایسا اس لئے بار بار دہرایا جاتا ہے کہ محکمہ پولیس میں کسی کو اس کا ذمہ دار نہیں بنایا گیا۔ ورنہ کسی کی مجال؟؟؟
ایک وقت ایسا تھا جب قصور یعنی بھلے شاہ کی نگری کو ان کی شاعری اور روحانیت کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔ لیکن آج قصور کی تاریخ پر بدنما داغ لگ چکا ہے۔ جب اس کے بچے، بچیوں کی عزتیں محفوظ ہیں نہ جانیں۔ قصور سے اٹھنے والی چیخیں رندھی ہوئی ہیں اور ان کی داستانِ غم سنی نہیں جاتی۔میں حیران ہوں کہ ایسا کیا ہو گیا، ہم اچھی تربیت اور پرورش کرنے میں کب ناکام ہوئے؟؟؟ یقیناًہمیں اپنا قبلہ درست کرنے کی اشد ضرورت ہے، دماغی نشونما اچھے سے کرنا ہوگی، اس علاقے کے لوگوں کی فرسٹریشن بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک چھوٹا سا سوال ہمارے ذہن میں ایسے ہی ابھرتا ہے کہ جب زینب کے والدین عمرہ کرنے گئے تھے تو اس کا نگران کون تھا؟ اس کے علاوہ اور کوئی تسلی بخش جواب ہے ہی نہیں کہ ’’ہمارا معاشرہ‘‘۔۔۔ پوری قوم جو ناکام رہی۔ زینب کے لئے اگر بہترین انصاف ہو سکتا ہے تو وہ صرف یہ کہ آئندہ کوئی زینب اس ظلم کی بھینٹ نہ چڑھے، ہمیں اس کے لئے اقدامات کرنے ہیں اور یہی زینب کے ساتھ ا نصاف ہو گا۔
No comments