• Breaking News

    سلام ترک عوام اپ نےواقعی کمال کیا


    چند روز قبل ترک فوج کے ایک ٹولے نے بغاوت کے در پے ایوان ہائے اقتدار کا رخ کیا، قطعی طور پر یہ نفاذ مار شل لاء کی روایتی مہم جوئی نہ تھی۔ ترک عوام نے اس ناکام بغاوت کو چند ہی گھنٹوں میں دبوچ لیا۔ یہ سب مارشل لاء کی تاریخ کی منفرد مثال ہے۔ جس میں عوام کے گہرے سیاسی شعور اور قابل قدر حقیقی جمہوری جذبے کا واضح ثبوت ملا ہے۔ سو عوام کی طاقت کایہ دبدبہ ترکی کی کل قومی زندگی پر حاوی ہو گیا۔ بلا شبہ یہ وہی جذبہ جمہوریت سے سرشاری ہے۔ جسے پیدا کرنے والی ترک حکومت ایک نئے ترکی کی تشکیل نو میں مصروف عمل ہے۔ اس بات سے انحراف بالکل قبول نہیں، طیب اردوان کی باعمل اور باوقار قیادت کے باعث ہی تر کی ایک جدید، خوشحال اور فلاحی اسلامی مملکت کے طور پر ابھرا ہے۔ جس سے ناصرف ترک عوام کا اقتصادی و معاشی تشخص بہتر ہوا بلکہ دنیا میں ترکی کا اسلامی تشخص بھی ابھر کر سامنے آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی اپنی بے باک قیادت کے پیچھے علاقے اور عالمی سطح کی سیاسی سرگرمیوں میں اپنی جگہ بنا چکا ہے۔ ترک عوام کو سلام عقیدت اور خراج پیش کرتے ہیں۔ جنہوں نے اپنے اتحاد، سیاسی بالغ نظری اور بروقت نتیجہ خیز مذاحمت سے ترک مملکت اور عوام کے خلاف گہری سازشیں کو ناکام بنا دیا۔ باغی دھڑے کی اس ناکامی اور ترک عوام کی فتح ترکی میں تیزی سے جاری ارتقائی عمل کو جاری رکھے گی۔ ترکی میں بغاوت کی ناکامی ترکی عوام کی عظیم کامیابی تو ہے ہی مگر یہ ترک حکمرانوں کی بھی فتح مبین ہے۔ ہمارے لئے سیکھنے کا سبق یہ ہے کہ جب حکمران عوام کیلئے کچھ کر کے دکھا دیں تو عوام ان کی خاطر جان دینے کیلئے بھی تیار ہوتے ہیں۔ یہاں پاکستان میں نمایاں حیثیتت رکھنے والے سیاسی رہنما ترکی اور پاکستان کے حالات کا موازنہ کر رہے ہیں۔ جو سراسر نا انصافی ہے۔ پھر ترکی اور پاکستان میں مماثلت تلاش کرنا وقت کا ضیاع بھی ہے۔ اس لیے ترکی میں فوجی بغاوت ناکام ہونے میں ایک ہی سبق ہے ۔ وہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران عوام کیلئے کچھ کرکے دکھائیں۔ بلاشبہ پاکستان کے غیور عوام اپنے ملک کے تحفظ اور جمہوریت کی بقا کیلئے ترکی عوام سے بڑھ کر قربانیاں دینے کے جذبے سے سرشار ہیں۔ پھر اس ناکام بغاوت میں عوام نے ثابت کیا کہ عوام ہی طاقت کا سرچشمہ ہیں۔ یہی ملک، حکومت اور جمہوریت کے محافظ ہیں۔ تو اگر سڑکوں پر نکل آئیں ٹینک بھی ان کا راستہ نہیں روک سکتے۔ جس کیلئے یہ شرط ہے وہ اپنی حکومت سے خوش ہوں۔ یہ طیب اردوان کی کارکردگی تھی۔ جس پر ترک عوام سازش کو ناکام بنانے کیلئے ایک ہی کال پر باہر نکل آئے،پھر وہی ہوا جسے سب نے خراج پیش کیا۔ آج اس ایک واقعے سے ہمارے حکمرانوں کو یہ نتیجہ اخذ کرنا ہے کہ وہ اپنا محاسبہ کریں۔ اپنے گریبان میں جھانکیں۔ تا کہ ہمارے دشمن ترکی جیسی بغاوت کا سوچ بھی نہ سکیں اور انہیں اپنے انجام کی خبر ہو۔ اب حکومت کو ان اعلانات کی بجائے عوام کو کچھ دینے کا وقت ہے۔ اگر وہ خوشحال ہوئے تو وہ خود اعلان کریں گے اور انہیں آپکے اعلانات کی قطعی ضرورت نہیں۔ وہ بالکل ترک عوام کی طرح اپنی حکومت کا ساتھ دیں گے، مگر پہلے آپکی باری ہے کہ انہیں خوشحال کریں۔ کیونکہ عوام نے آپ کو ووٹ کی پرچی سے اقتدار کے ایوان میں تو جگہ دی مگر انکا کوئی پرسان حال نہ بنا۔ ہمارے لئے ترکی کی اس کہانی میں سیکھنے کے یوں تو کئی سبق ہیں۔ اور یہ کتنا اہم ہے کہ ہمارے ریاستی اور عوامی خدمت کے ادارے جتنے کمزور ہیں۔ افواج پاکستان کی تنظیم اور بطور ریاستی ادارہ ملکی حالات کچھ بھی اور کتنے ہی کھٹن کیوں نہ ہوں۔ افواج پاکستان میں ٹولا بازی کا امکان بھی موجود نہیں۔ نہ ہی ایک کے علاوہ دوسرے کی کمان میں کچھ ہو سکتا ہے۔ علاوہ ازیں جو دھڑا بندی ہماری اور ترکی کی سیاسی طاقتوں میں نظر آتی ہے، پاک فوج میں ایسا قطعی نہیں۔ پاکستان میں ترکی کی اس کہانی کو حکومت کے حامی اور اپوزیشن سب اپنی اپنی سیاست کیلئے استعمال تو کر رہے ہیں۔ مگر حقیقت میں ایسی کوئی مماثلت نہیں بنتی۔ چونکہ دونوں ملکوں کے حکمران، عوام اور افراد کے رویوں میں بے پناہ فرق ہے۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ ترکی کے اس واقعے سے سبق ضرور حاصل کیا جائے تاہم اسے اپنی داخلی سیاست کا سہارا نہ بنایا جائے۔ 
    قارئین ترکی میں عوامی قوت نے فوجی انقلاب کی سازش کو ناکام بنا دیا اور لوگ فوجی ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے، آخر کیوں؟ یہ محض اس لئے کہ طیب اردوان اور اس کی پارٹی کی جڑیں عوام میں گہری ہیں۔ لوگوں کو طیب اردوان اور اس کی اہلیت، بصیرت، ایمانداری اور کارکردگی پر یقین ہے۔ اور یہ سب ہماری سیاست کے بر عکس ہے۔ یہاں تو نعرے بازی، خوش آمدیں اور دربار داری کے رول ماڈل ہیں۔ ورنہ آپ کی تاریخ گواہ ہے۔ 12 اکتوبر 1999 ؁ء کو جنرل مشرف کا کسی نے راستہ نہیں روکا تھا۔ بلکہ شہروں میں ویلکم ویلکم لکھا گیا۔ حتیٰ کے لاہور شہر میں سناٹا چھا گیا اور کوئی اکا دکا مذاحمت میں بھی حکومتی سپورٹر سامنے نہ آیا۔ مٹھائیاں بانٹی گئیں۔ شاید اسی لئے کہ حکومت سے سب نالاں تھے۔ آج بھی دارلخلافہ سمیت دیگر شہروں میں آرمی چیف کو خوش آمدید کہا جا رہا ہے۔ یہ اس لئے ہے کہ حکمرانوں نے عوام کی بہبود اور خوشحالی کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ محض ساز باز اور چند پے رول پر لوگوں کو اپنی حمایت کیلئے آمادہ کیا گیا اور انتخاب جیتنے کے ساتھ ہی اپنے دعووں، وعدوں کے ساتھ دفن ہو گئے۔ ترک عوام بار دیگر تحسین اور مبارک باد کے مستحق ہیں۔ جنہوں نے غیر معمولی شجاعت اور دلیرانہ کاوش سے خالی ہاتھ مسلح باغیوں کا مقابلہ کیا اور انہیں شکست فاش سے دو چار کیا۔ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے چند گھنٹوں کے اندر "مسلح بغاوت " کو کچل ڈالہ اور ملک کو بڑے بحران سے اس طرح نکال لیا جس طرح مکھن سے با آسانی بال نکال لیا جائے۔ یہی وہ عمل تھا جس سے ترک عوام کا تفاخر بڑھا اور حکومتوں نے اسے سراہا۔