• Breaking News

    گناہ سے بچوں ےا جرم سے؟؟؟

    گناہ سے بچوں یا جرم سے؟؟؟



    ہمارا ایک ہی المیہ ہے، ہم بات بات پر مذہب کو گھسیٹ لاتے ہیں اور بے تکی بحث میں دخیل ہو کر موضوع بحث سے بھی بھٹک جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں اس بات کا عملی مشاہدہ ہوا۔ میں نے سوشل میڈیا پر حرف امرت کے گروپ میں گروپ ممبرز سے ایک سوال کیا۔ ’’بتایا جائے آیا گناہ سے باز رہا جائے یا کہ جرم سے؟‘‘ تو حسب روایت اکثریت نے مذہبی نکتہ نگاہ سے کہا گناہ سے بچنا چاہئیے۔ اور پیشتر روز میرے ایک ہم جماعت اسامہ خان نے بھی سوشل میڈیا پر ایک سوال پوچھا۔ ’’شادی سے قبل جنسی تعلق کے بارے آپ سب کیا کہتے ہیں؟‘‘ تو عمومی جواب مذہبی نکتہ نظر سے ہی دیے گئے۔ مجھے فوراً ادراک ہو گیا ہمارے معاشرے میں جرائم کی شرح کم کرنے میں جو چیز مانع ہے۔ وہ یہ سوچ ہے۔ حالانکہ اکثر سوچ مثبت بھی ہوتی ہے لیکن اس کا اطلاق منفی ہو رہاہوتا ہے۔ اوّل تو کوئی گناہ اور جرم کی تعریف ہی نہیں جانتا۔ تو یاد رہے ہر جرم گناہ ہے لیکن ہر گناہ جرم نہیں ہے۔ جرم کا تعلق فرد یا معاشرے سے ہے جبکہ گناہ کا براہ راست تعلق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ، اس کے رُسل اور ان کی دی گئی تعلیمات کی نفی سے ہے ۔ جرم کی پوچھ گچھ دنیا میں ہوتی ہے اور گناہ کا حساب کتاب بعد از موت ہوتا ہے۔ نہایت شاندار کلیہ کہ قانون کی خلاف ورزی جرم ہے جبکہ خدا وند تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کوئی فعل گناہ ہے۔ اب اس سوال پر آتے ہیں کہ آیا میں گناہ سے بچوں یا پھر جرم سے؟ اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ جرم سے بھی باز رہنا چاہئیے اور گناہ سے بھی بچنا چاہئیے۔ البتہ تر جیحات کا تعین کرنے سے مشکل آسان ہو جائے گی۔ جب تک ہم گناہ و جرم کے فرق سے آگاہ نہیں ہونگے ترجیحات کا تعین ہرگز ممکن نہیں۔
    ہم بچپن سے اپنی دینیات کی کتابوں میں پڑھتے آئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے حقوق تو معاف کر دیتا ہے لیکن اپنے بندوں کے حقوق معاف نہیں کرتا۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے سخت ناخوش ہوتا ہے اگر وہ اس کے دوسرے بندوں کو تکلیف پہنچائیں۔ ان کے حقوق کا استحصال کریں۔ ہاں اگر کسی ایک شخص سے دوسرے کو تکلیف پہنچے تو ضروری ہے کہ وہ اس سے معافی مانگے اور اگر وہ معاف نہ کرے تو اللہ تعالیٰ بھی کسی صورت معاف نہیں کرتا۔ خداوند کریم کو حقوق اللہ سے کم غرض ہے کیوں کہ اس کی رحمت کے خزانے بہت وسیع ہیں۔ اللہ تعالیٰ رحیم ہے لیکن کسی دوسرے کی حق تلفی ہو یہ اسے گوارہ نہیں۔

    قارئین کرام، تو کیا سمجھے آپ؟ اگر ہم جرم کو حقوق العباد کے کھاتے میں ڈال دیں اور گناہ کو حقوق اللہ کے حصے میں تو ہمارے جملہ مسائل سہل ہو جائیں گے۔ جب جرم کا تعلق دنیا سے ہے تو اس کا حساب کتاب دنیا میں چکتا نہ ہو تو فلاح نہیں،تو کیا اب بھی آپ جرم کرنے پر مصر ہیں؟ گناہ تو اللہ تعالیٰ کی ڈومین میں آتا ہے اور وہ گناہ اس حال میں بھی بخش دیتا ہے اگر اس کی مخلوق کے ساتھ بھلائی کی جائے۔ توکیا درست ہو گا کہ ہم جرم تو کریں مگر گناہ سے بچیں؟ حالانکہ گناہ کے اثرات انفرادی ہیں اور جرم کے اثرات اجتماعی ہیں۔ انسان گناہ کے سبب صرف ایک اللہ کو فراموش کرتا ہے لیکن جرم کرکے اس کی پوری مخلوق کو فراموش کرکے قصور وار ٹھہرتا ہے۔ اگر کوئی گناہ سرزد ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے توبہ استغفار کرے گا اور دوسری طرف جرم کی پاداش میں اس کی مخلوق سے معافی طلب کرے گا وگرنہ مروجہ قوانین کی بدولت اس جرم کی سزا پائے گا اور خلاصی چاہے گا۔

    گناہ کو مختلف مذاہب میں مختلف انداز میں لیا گیا ہے۔ ہندومت، بدھ مت اور عیسائیت میں گناہ تصوراتی ہیں یعنی مثبت سوچ، مثبت فعل، سچ کی خلاف ورزی گناہ شمار کی جاتی ہے۔ ہندو مت میں کسی دوسرے کے مذہب پر بولنا بھی گناہ ہے، بدھ مت میں اگر کوئی سوچ، لفظ یا کام دوسرے کے لئے باعث تکلیف سر سزد کرے گویا اس نے گناہ کیا۔ جب کہ عیسائیت میں امن و پیار سے نہ رہنا بھی گناہ ہے۔ لیکن مسلمان اور یہودیت میں گناہ اور جرم کی تفصیل درج بالا سے خاصی مختلف ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہر جرم گناہ لیکن ہر گناہ جرم نہیں۔ ان دونوں مذاہب کے ہاں گناہ سے زیادہ جرم یعنی کسی خاص حکم نامے کی خلاف ورزی کو ایک ہی وقت میں جرم اور پھر گناہ دونوں سے تعبیر کیا گیا ہے۔ 

    آج اس موضوع پر قلم اٹھانے کی جسارت ایک خاص مقصد کے تحت کی گئی۔ اکثر مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ کوئی خلاف قانون واقعہ پیش آ جائے تو اس کو گناہ کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ ابھی زینب قتل و زیادتی کے حوالے سے بھی بے شمار لوگوں کا ایک ہی بیانیہ سننے کو ملا کہ عمران نے گناہ کیا ہے، اس کی سزا ملنی چاہئیے۔ اس کے برعکس بہتر مطالبہ تو یہ ہے کہ اس نے جرم کیا ہے اسے اس جرم کی سزا دی جائے۔ چوں کہ گناہ کی سزا کا حق صرف اللہ تعالیٰ کا ہے۔ ہم معاذ اللہ خدا وند تعالیٰ کا استحقاق چھین کر خود کیوں استعمال کرنا چاہتے ہیں؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو با اختیار بنایا کہ تم اپنے قانون بناؤ، تم اپنی عدالتیں بناؤ اور جو تم انصاف کرو گے وہ میں قبول کروں گا۔ اس لئے ضروری ہے کہ اپنے اختیار کا درست استعمال کریں۔

    کسی دانا کا قول ہے کہ گناہ سے نفرت کریں گناہ گار سے نہیں۔ اور پاکستان کی جیلوں پر بھی کندہ کیا گیا ہے کہ نفرت جرم سے ہے مجرم سے نہیں۔ آخر کار اگر ہم اس وقت معاشرے سے برائیوں کا سد باب چاہتے ہیں تو جملہ مسائلہ قابل حل ہیں۔ بس ہمیں جرم سے باز رہنا ہوگا کیوں کہ اس سے جمعیت متاثر ہوتی ہے۔ جرم سے بچیں گے تو ہم گناہوں سے خود بہ خود بچ جائیں گے۔ یقین کیجیے ہمیں ادارک نہیں کہ مخلوق کی خدمت کیا ہے، اگر ہمیں پتہ چل جائے تو ہم دنیا کے سب کام چھوڑ چھاڑ کر مخلوق کی خدمت میں لگ جائیں۔ واصف علی واصف کا قول ہے کہ ہم ہر حالت سے سمجھوتہ کرلیتے ہیں لیکن ہم انسانوں سے سمجھوتہ نہیں کرتے۔ اور ایک جگہ انہوں نے کہا بندہ جب اللہ کی تلاش میں نکلتا ہے تو دوسری طرف بھی اسے ایک بندہ ہی ملتا ہے۔ اس لئے میں کبھی بھی مخلوق کو تکلیف دے کر جرم کا ارتکاب نہیں کروں گا کہ اللہ تعالیٰ اس کی بدولت میرے دیگر گناہ بخش دے گا۔ 

    No comments