مودی کا تفاخر بھارتی بقاء سے اہم؟؟؟
یہ ایک عجیب روایت چل نکلی ہے کہ "جمہوریت" کے نام پر حکومت اور میڈیا یک زبان ہو جاتے ہیں۔ صحافتی ادارے بلا جھجک حکومت کی تعریف و توصیف اور قصیدہ خوانی شروع کرد یتے ہیں۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ آج سے پہلے ایسا سمجھوتا اور غیر ذمہ دارانہ صحافت کم یاب تھی۔ آج کا میڈیا بد قسمتی سے اپنے رہنما اصول ذہن سے اتار چکا ہے، جیسا کہ میڈیا کو جمہوریت کا پانچواں ستون مانا جاتا تھا، لیکن اب نہیں۔ نیشن بلڈنگ میں میڈیا کا کلیدی کردار پنہاں ہوتا ہے، اس بات کی تصدیق شواہد کرتے ہیں۔ ہمارے ہم سایہ ملک بھارت کے میڈیا کے حالات پاکستان سے کہیں زیادہ پراگندہ ہیں۔ بھارتی میڈیا اس وقت ایک پولارائزڈ ادارہ بن چکا ہے، جو مذہبی و معاشرتی فسادات کے ازالے میں اپنا کردار نبھانے کے برعکس بہ ذات خود بیشتر گھناؤنے فعلوں اور فتنہ انگیزیوں کا مرتکب ہے۔ متذکرہ برے اطوار کا زیادہ تر قصوروار الیکٹرانک میڈیا ہی ہے۔ جو اپنی ویورشپ اور ریٹنگ کو لے کر حد درجہ غیر معیاری، غیر حقیقی اور غیر ذمہ دارانہ مواد نشر کر کے عام لوگوں کی توجہ حاصل کرتا ہے۔ نتیجتاً لوگ اچھی معلومات یا اچھا تاثر لینے کے بجائے بہکاوے میں آ جاتے ہیں اور ایک دیوانگی کا عالم ہوتا ہے۔ اس ضمن پرائم ٹائم شوز نے سراسر جنگ برپا کر رکھی ہے۔ جہاں خام نوعیت کی سطحی نیشلسٹک ٹون استعمال کی جاتی ہے اور دوسری طرف برسراقتدار ہندوؤں کے دائیں بازو کی جماعت (بھارتی جنتا پارٹی) کی ہاں میں ہاں ملا کر عوام کو اپنی طرف راغب کیا جاتا ہے۔ مذکورہ جماعت کا واحد منشور و عقیدہ ایک ہی ہے کہ پوری قوم کو قوم پرستی کے جھنڈے تلے جمع کیا جائے، مگر اس قوم پرستی کا عالم یہ ہے کہ اس کا فوکس اقلیتوں کے جینے کے حقوق سلب کرنا اور حق کی آواز کو دبانا ہے۔ ان تمام مقاصد کے حصول کے لئے نریندر مودی کا آسان حدف پاکستان کے مسئلے پر درجہ حرارت عروج پر رکھنا ہے۔ حالانکہ یہاں میڈیا کی ذمہ داری تھی کہ وہ حکومت سے یہ سوال پوچھے کہ بھارتی حکومت کا ضابطہ کار اپنے ہم سائے ملک کے ساتھ کیسا ہونا چاہئیے، بالخصوص سب سے بڑے مسئلے "مسئلہ کشمیر" کے حوالے سے، لیکن بھارتی میڈیا نے الٹی ہی چال چلی۔ اہل نظر اور ہوش مند لوگوں کے لئے یہ نہایت کٹھن مرحلہ ہے اور ان شہریوں کے لئے بھی جو ہر حالت میں امن، امن اور امن کے خواہاں ہیں۔ بھارت کے امن پسند شہریوں کا بنیادی مسئلہ اب یہ ہے کہ بھارتی میڈیا حکومتی بولی بول رہا ہے۔ اس بات کا ادراک بھی نہیں کر رہا کہ قومی مفاد میں کیا ہے اور پر امن ملک کا کیسا ماحول ہونا چاہےئے۔ بھارتی میڈیا اس وقت جلتی پر تیل کا چھڑکاؤ کر رہا ہے۔ یہ بات قلی طور پر قابل قبول تو نہیں لیکن اس میں کسی حد تک صداقت ضرور ہے، میڈیا کی اکثریت سچ بولنے سے صرف اس لئے کتراتی ہے کہ انہیں انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے آئے روز دھمکیوں کا سامنا رہتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی صائب ہے، بھارتی میڈیا بہ ذات خود وسوسوں اور تقسیم کا شکار ہے۔ جس کی باتیں اور من گھڑت کہانیاں انسانی عقل تسلیم کرنے کو تیار نہیں، بغیر سر، دھڑ اور پاؤں کے باتوں سے اپنے عوام کو گمراہ کرنے والا میڈیا عوام کی توانائیاں غلط سمت صرف کر رہا ہے۔ بعض اوقات ایسا تاثر بھی ملتا ہے کہ بھارتی میڈیا کی سوچ اور فہم موجودہ حکومت کے دماغوں تک سرائیت کر چکی ہے۔ مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد میٖڈیا نے بھی مودی سرکار کے ساتھ ہی دشمنی، نفرت اور آگ کی ٹرین کا ٹکٹ کٹا لیا ہے۔ قبل اس کے کارپوریٹ بھارتی میڈیا نے ہی مودی کو A Strong Man کے طور پر پیش کیا تھا، وہ شخص جو اپنی سیاسی شناخت اور حیثیت کھو چکا تھا اور جس کا سورج اس وقت غروب ہوا جب اس نے 2002ء گجرات کے فسادات برپا کروائے۔ مودی نے اقتدار محض میڈیا کی تیر رفتار گاڑی میں بیٹھ کر حاصل کیا۔ کارپوریٹ ورلڈ کے میڈیا ہاوسز نے مودی کو ملک کے معاشی اور سیاسی مسائل کے لئے اکسیر عظیم کے طور پر پیش کیا۔ لیکن اڑھائی سال سے برسراقتدار رہتے ہوئے آج مودی سرکار "سٹرگل" کر رہی ہے اور کوشش میں ہے کہ وہ بلند بانگ دعووں کو کسی طرح پورا کر سکے۔ جو مودی سرکار نہیں کر پارہی اور ان کے گرتے گراف کو وہ میڈیا ہاؤسز یا کارپوریٹ ادارے قبول کرنے کو تیار نہیں۔ بھارتی میڈیا ہاؤسز کی غیر معیاری صحافت اور رپورٹنگ اب اس کوشش میں جت گئی ہے تا کہ مودی کی حقانیت کو برقرار رکھا جائے۔ اس قسم کی اوچھی حرکتوں کا عملی شاخسانہ اُڑی حملہ ہے، جس میں ایک ہی ملک کے مختلف میڈیا گروپس کی متضاد اور مختلف آراء سامنے آئیں۔ جن میں سے بعض میڈیا ہاؤسز تو ابھی تک مودی کو ایک مضبوط آدمی پیش کرنے پر مصر ہیں۔ اس حالیہ کشیدگی کے پس منظر میں یہ تاثر دینے کہ بھی سعی کی گئی کہ ہندوؤں کا دائیاں بازو "حکومت"ہم سائے ملک کے خلاف کسی قسم کے بھی جارحانہ اقدام کے لئے تیار اور آمادہ ہے۔ اس عمل کو سابق وزیراعظم بھارت من موہن سنگھ نے سخت ناپسند کیا۔ حتیٰ کہ بعض ٹی وی چینلز نے ایسی رپورٹس بھی چلا دیں کہ نریندر مودی عسکری چیف کے ساتھ وار روم میں میٹنگ کر رہے ہیں اور ممکنہ اقدامات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ صرف یہی نہیں بعض بھارتی میڈیا ہاؤسز نے پاکستان پر حملہ کرنے کے لئے بھی بھر پور اکسایا، جسے سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگوں نے یکسر مسترد کرتے ہوئے انتباہ دیا کہ اس جنگ میں بھارت کا زیادہ نقصان ہو گا اور وہ ہی باز رہے۔
قارئین، دراصل حقیقت حال کچھ اس طرح سے ہے۔ پورا انڈیا "مقبوضہ انڈیا" بن چکا ہے، انڈیا پر قبضہ کسی بیرونی طاقت کا نہیں بل کہ وہ اپنے اندر سے اٹھنے والی تحریکوں کے ہاتھوں مقبوض ہے۔ خواہ وہ تامل موومنٹ ہو یا خالصتان کی تحریک یا پھر کوئی اور۔۔۔ آج کل ایک بات دبے لفطوں میں کہی جاتی ہے، انڈیا ٹوٹا تو اس سے کئی "پاکستان"نکلیں گے اور اس بات میں جذبات سے زیادہ صداقت پائی جاتی ہے۔ انڈیا کے لوگوں کی اس مشکل پر بھارتی حکومت آنکھیں بند کئے ہوئے ہے تو دوسری طرف بھارتی میڈیا بھی سرکار کی زبان بول رہا ہے۔ شاید بھارتی حکومت یہ ادراک کرنے سے قاصر ہے کہ انڈیا میں ہی موجود ایسے ایجنٹ ہیں جو "انڈیا"کے آئیڈیا کو بھی ناپسند کرتے ہیں۔ تو ان تمام حالات و واقعات کی روشنی میں بھارتی میڈیا کو فیصلہ کرنا ہے کہ اسے اپنے عوام کی رہنمائی و نمائندگی کرنی ہے یا پھر مودی کا تفاخر بڑھا کر پورے بھارت کی بقاء و سلامتی کو خطرات میں جھونکنا ہے اور کیا اس کا بھارت متحمل ہو سکتا ہے؟؟؟