نظامِ عدل میں بے باک قیادت ناگزیر ہے؟
رائج موجودہ نظام بارے کسی کو کوئی شبہ نہیں کہ یہ محض بوسیدہ ہی نہیں بلکہ ناکام نظامِ ریاست ہے۔ اس نظام کی مثال سو سالہ پرانے چھکڑے جیسی ہے، جس میں آئے روز نیا انجن نصب کیا جاتا ہے۔ ہلکی پھلکی مرمت اور ساز باز بھی کی جاتی ہے۔ چونکہ اب یہ گاڑی چلنے لائق ہی نہیں لہٰذا اسے چلانے کی ہر کوشش ناکام ٹھہرتی ہے۔ اسی طرح ہمارا نظام (بلا تفریق نظامِ سیاست، نظامِ عدل، نظامِ معیشت، نظامِ معاشرت و ریاست) ملک کی گاڑی چلانے اور انسانوں کو بنیادی حقوق کی فراہمی میں ناکام ثابت ہو چکا ہے۔ نہایت کمزور اور اپاہج نظام کو متحرک رکھے والے چند غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل ایسے افراد ہیں، جو یہ سلسلہ چلا رہے ہیں یا یہ سلسلہ چلانے کی مناسب سعی کر رہے ہیں۔
قارئین، گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس منصور علی شاہ نے حلف اُٹھائے چند دورانیے میں عدلیہ کیلئے اصلاحات لانے اور اسکے کردار کی فعال اور بہتر بنانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ یقین کیجئے ہمارے یہاں ایسے افراد کی ہر گز کمی نہیں جو اس گلے سڑے نظام کے خلاف سینہ سپر ہو کر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔ اس نیک مقصد کے عوض مفاد پرست طاقتور حلقوں کو چیلنج کر کے اپنا مخالف بنا لیں اور ان سے دشمنی میں ڈٹ جائیں۔ جسٹس منصور علی ایسے ہی نابغہ روز گار ہیں۔ جن کا لوگ بھر پور خیر مقدم کر رہے ہیں۔ ان کی بے باکی سے چند لوگ خوف زدہ ہیں۔ جنہیں یہ ادراک ہے کہ منصور شاہ اپنے کام سے کام رکھنے والے، ہر کام کو راست اور دیانتداری سے انجام دینے والے ہیں۔ وہ واقفان جو لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس صاحب کی کارکردگی سے شناسا ہیں، بخوبی جانتے ہیں کہ انہیں مسائل کا علم ہے۔ وہ ان کے حل کیلئے کوشش بھی کر رہے ہیں۔ انہوں نے ایک جج ہونے کی حیثیت سے عدالت پر کیس مینجمنٹ کو اور شفافیت کو یقینی بنانے کو ترجیح دی۔ بعض اطلاعات میں ان کی بے باکی کا چرچہ ان الفاظ میں ملتا ہے کہ منصور شاہ نے با اثر افراد کا اپنے کیسز کیلئے من پسند ججوں کو چننے کے امکان کو بھی ختم کر دیا ہے۔ انہوں نے کوشش کی ہے کہ کیس اس جج کے پاس جائیں جو اسی کے بارے میں تجربہ رکھتا ہو۔ انہوں نے لاہور ہائی کورٹ کے سٹاف کیلئے ریسورس سینٹر بنایا۔ جس میں ضلعی عدلیہ کے تجربہ کار ممبران ہائی کورٹ کے جج حضرات کے لئے ریسرچ کے فرائض انجام دیتے تھے۔ علاوہ ازیں انہوں نے لاہور ہائی کورٹ کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنے کے منصوبے کی حمایت کی۔ انہوں نے پنجاب جوڈیشل اکیڈمی کو تربیت اور مہارت کی حقیقی اور معنوی درسگاہ بنانے پر زور دیا تاکہ یہ محض ریٹائرڈ ججوں کی آرام گاہ نہ رہے۔ اس ضمن عرض کرتا چلوں کہ بلا شبہ ہمارا مجموعی "نظام" نہایت لاغر ہے اور بلاشبہ موصوف جسٹس اپنی صلاحیتوں، کارکردگی اور کردار کی سچائی کی بنا پر لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقرر ہونے اہل تھے۔ لیکن طمانیت اس لئے کہ ان جیسے بے باک، زیرک اور روایتی عدلیہ اطوار سے ناراض شخص کو پنجاب عدلیہ کا سربراہ بنانے کی شاباشی جوڈیشل کمیشن کو چلانے والے سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو جاتی ہے۔ورنہ تو اربابِ اختیار کی ترکیب و تدبیر ہوتی ہے کہ ان کے ارد گرد کمزور افراد اور معمولی اہلیت کے حامل ہی آگے آئیں۔ چند سال پرانی بات ہے جب وکلاء کی تحریک نے ہمارا جوشِ ایمانی بیدار کیا تھا۔ ہم کبھی وہ دور واپس نہ لوٹا پائیں گے۔ جب افتخار محمد چوہدری ایک طاقتور چیف جسٹس آف پاکستان تھے۔ وکلا کے جاں نثاروں، دیگر ججز اور پوری قوم ان کے پیچھے ایک صف میں تھی۔ اسٹیبلشمنٹ ان کے سامنے مرعوب تھی اور بڑے بڑے اعلیٰ و بالا افسران ان کے سامنے پیش ہوتے کپکپاتے تھے۔ مگر "اب کیا ہوت جب ۔۔۔" ان کا دور کس قدر وقت کا ضیاں ثابت ہوا اور نادر موقع ہاتھ سے گنوا بیٹھے۔ خیر ہمارے پاس امید کا دامن گیر ہونے کی وجہ اب بھی باقی ہے۔ ہماری خود اعتمادی کہہ لیجئیے کہ ہم اپنے ارد گرد ایسے افردا کو پاتے ہیں۔ جو مضبوط کردار اور با حوصلہ ہیں۔ وہ جو اربابِ اختیار و اقتدار کے اختلاف کو مول لیتے ہوئے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ سو جسٹس منصور شاہ تو کسی کی مصاحبی کر ہی نہیں سکتے۔ ان کی بطورِ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ ایسی کامیابی ہے۔ جس نے ہمارے چہار جانب چھائی قنوطیت کو شکست فاش سے دو چار رک دیا ہے۔ ذرا قینوس میں دیکھئیے۔ جب جسٹس ثاقب نثار چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس کھوسسہ سنیارٹی میں دوسرے نمبر پر اور جسٹس منصور شاہ لاہور ہائی کورٹ کے جج ہونگے تو بلا ہمارے سامنے کیسے جسٹس سسٹم میں با معنی اصلاحات نہیں آئیں گی؟ ہمارے یہاں عدلیہ کے ایک اور تابندہ ستارے چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس یحیٰی آفریدی ہیں جو ممکنہ طور ہر اگلے چیف جسٹس ہوں گے۔ ہمیں یقین ہے اگر ایسی قیادت عدلیہ کو چند سال دستیاب رہی تو پاکستان میں عدلاتی نظام میں اکھاڑ پچھاڑ یعنی نظام کی اصلاح کا امکان روشن ہو جائے گا۔
آج وطنِ عزیز میں جسٹس سسٹم کے مسائل کا تعین کوئی سائنسی معمع نہیں ہے کہ الجھنوں میں لپٹا رہے۔ اور کرخت سوال بھی یہی ہے کہ تو پھر ان مسائل کی گتھی کوئی کیوں نہیں سلجھاتا؟ جواب ہے کہ محترم یاد رکھئیے ہمارے یہاں ایسے افراد کی قلت ہے، جو اس پھٹکار پڑے نظام کو چیلنج نہیں کرتے۔ اپنی صلاحیتوں کو مثبت سمت رواں نہیں رکھتے۔ طاقتوروں کے مفاد کو چیلنج نہیں کرتے بلکہ اپنا مفاد ان سے وابسطہ کر لیتے ہیں۔ وہ برائی کو اپنا دشمن نہیں بناتے بلکہ مصلحتاً اچھائی کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ غالباً یہ جملہ سنا یا کہیں پڑھا ہے کہ "خدائے با برکت ہر انسان کو بڑا انسان بننے ا ور خود کو نمایاں کرنے کا ایک موقع زندگی میں ضرور فراہم کرتا ہے، اب وہ فائدہ اُٹھائے یا ضائع کر دے۔" نظامِ عدل کی اصلاح جتنی ضروری ہے اتنی ہی ممکن بھی اور لازم بھی۔ موجودہ جوڈیشل افسران اسے ممکن کر سکتے ہیں۔ مگر ساتھ ہی انہیں انتباہ ہونی چاہئیے کہ تباہی و مایوسی پھیلانے والے عناصر بھی موجود ہیں۔ جنہیں نظر انداز کرنا ہے۔ موجودہ نظام زیادہ دیر تک نہیں رواج پا سکتا، آخر اس کی اصلاح ہونا ہے جو کہ ناگزیر ہے۔
No comments