• Breaking News

    مسلم دنیا خاموش، امریکی غیر مسلم ڈٹ گئے


    ہمارا عمومی نظریہ یہی ہے کہ انتخابی مہم کے دوران انتخابی نمائندے ذرا جارحانہ اور قدرے بے باک ہوتے ہیں، جونہی انتخابی کامیابی ملتی ہے رفتہ رفتہ مصلحت پسند اور حد درجہ محتاط ہو جاتے ہیں۔ شا و نادر ایسا بھی ہوتا ہے کہ منتخب نمائندے کام یاب ہونے کے بعد باوجوہ اپنی تلخی مزاج کو جوں کا توں رہنے دیتے ہیں۔ اس قسم کے سیاسی لیڈروں میں ڈونلڈ ٹرمپ بہترین مثال ہیں۔ صدر کی کرسی پر براجمان ہوئے انہیں جمعہ جمعہ آٹھ دن ہی ہوئے ہیں کہ ٹرمپ نے اپنے انتخابی منشور پر عمل کرتے ہوئے ایسے ایگزیکٹو آرڈر جاری کر دیئے ہیں، جو مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لئے وبال جان بن گئے ہیں۔ علاوہ ازیں بیسیوں ایسے مسودے ہیں جن پر ٹرمپ نے ابھی مہر ثبت کرنی ہے۔ سات مسلمان ممالک کے لوگوں کا امریکہ میں داخلہ تو صرف ایک فیصلہ ہے جس سے ائیر لائن انڈسٹری، ٹریول و ٹورزم، امریکی ائیر پورٹس اور امریکی امیگریشن و کسٹم حکام سرپکڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔ اگر باقی مانندہ مسودات پر عمل در آمد ہو گیا تو کون کون طبقات استحصال سے دو چار ہوں گے؟؟؟ اس بارے مستقبل قریب میں خبریں آنا شروع ہو جائیں گی۔ اگرچہ ابھی تک پاکستان، سعودی عرب وغیرہ پابندی کی اس فہرست میں شامل نہیں تا ہم ان ممالک کے شہریوں نے اس فیصلے کا اثر ضرور لیا ہے۔ مزید برآں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امت مسلمہ کے اتحاد کی حمایت کرنے والے کہاں ہیں، آخر خاموcdش کیوں ہیں؟ پھر دوسری طرف اسلامی مالک کی تنظیم او آئی سی بھی بے بسی کی تصویر کیوں بنی ہوئی ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ مسلم حکمران محض اپنے اقتدار کی فکر میں محو و مگن ہیں؟ ان حالات جب او آئی سی اور مسلمان حکمران اور ان کی حکومتیں چپ سادھ بیٹھی ہیں، تو دوسری طرف امریکہ میں بسنے والے مسلمان، ان کے خاندان، نئی نسل، لواحقین اور متذکرہ اسلامی ممالک کے شہری ٹرمپ کے مذہبی امتیاز اور پابندیوں کا شکار ہیں۔ ٹرمپ نے امریکی سیاست میں ایک نئی تقسیم پیدا کر دی ہے، بلاشبہ یہی تقسیم ان کی انتخابی مہم کا مرکزی نکتہ تھا اور اسی بنیاد پر اسے غیر متوقع کامیابی بھی ملی تھی۔ یہاں ٹرمپ کے لئے بھی سب سے بڑا امتحان یہ ہے کہ آیا وہ اقتدار کی سیاست کے داؤ پیچ اور انتخابی مہم کی سیاست کے مابین توازن قائم کر سکتے ہیں یا نہیں؟ کیوں کہ یہی تو سیاسی قیادت کے لئے بڑا امتحان ہوتا ہے۔ شام، ایران، عراق، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور یمن ان سات ممالک کے شہریوں پر پابندی لگانے کا مقصد کیا ہے اور اس سے امریکی شہریوں اور ان کی معیشیت کو کیا فائدہ ہو گا، اس کا جواب ابھی تک ٹرمپ یا اس کی کابینہ نے نہیں دیا۔ لیکن جو دہشت گردی والی توجیح بیان کی جاتی ہے یہ نا کافی ہے، چوں کہ اب یہ فاش راز ہے کہ امریکہ نے خود ہی نائن الیون کی صورت میں دہشت گردی کا عفریت جنم دینے کا جواز پیش کیا تھا۔ اب اگر امریکہ کے بس میں دہشت گردی و انتہا پسندی کو قابو کرنا نہیں رہا تو وہ پابندیاں لگانے پر تل گیا۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے، جیسا کہ ٹرمپ اسلامی انتہا پسندی یا دہشت گردی کو بنیاد بنا کر ڈرامہ رچا رہے ہیں یہ عین اوباما کی پالیسویں کا حصہ ہے۔ چوں کہ اوباما کا بنیادی نکتہ بھی یہی رہا ہے کہ ہم امریکہ کو اسلامی بنیاد پرستی اور دہشت گردی سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ اس تناظر میں ٹرمپ نے امریکہ کا نعرہ لگا کر خود کو امریکی مفادات کا حامی قرار دیا ہے لیکن جان مکین اور لینڈس گریم نے تنبیہ کی ہے کہ ٹرمپ کا یہ اقدام دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خود کو لگائی گئی چوٹ بن سکتا ہے۔ کیوں کہ ہر عمل کا رد عمل یقینی ہے۔ بر طانوی وزیر خارجہ بورس جانسن نے بھی امریکہ میں مسلمانوں پر پابندیوں کے فیصلے کی حوصلہ شکنی کی ہے اور کہا ہے کہ اس سے امریکہ میں تفریق پیدا ہو گی۔ 
    قارئین کرام، اگرچہ امریکہ میں مقیم پاکستانی مسلم کمیونٹی حالات کی سنگینی پر اضطراب کی کیفیت میں ہے مگر قرائن یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان پر امریکہ میں داخلے پر پابندی لگانا امریکی مفاد میں نہیں ہے، نہ ہی اس کے امکانات ہیں۔ چوں کہ امریکہ کے اس خطے بالخصوص پاکستان سے اہم ترین مفادات وابستہ ہیں۔ امریکہ میں پاکستانی شہری اگر خطرہ محسوس کر رہے ہیں تو وہ محض اس لئے کہ ٹرمپ نے جو حکم نامہ جاری کیا اس میں پاکستان سمیت دیگر اسلامی ملکوں کو پابندی کا نشانہ بنائے جانے والے ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کی گنجائش کا ذکر بھی کیا ہے۔ امریکی صدر کے بقول یہ سب اقدامات دہشت گردی کو روکنے کے لئے کئے جا رہے ہیں۔ لیکن اس تاثر کو ایرانی وزیر خارجہ نے رد کرتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے انتہا پسندوں کی سرگرمیوں کو مہمیز ملنے کے زیادہ امکانات ہیں۔ علاوہ ازیں امریکہ خیراتی تنظیم جماعت دعوہ کے درپے ہے، امریکہ نے اس تنظیم کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا، بصورت دیگر پاکستان کو پابندیوں کے لئے تیار رہنے کی دھمکی دے دی۔ لیکن امریکہ کو یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہئیے کہ ایسے اقدامات سے انتہا پسند مضبوط ہوتے ہیں۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے قطعی طور پر یہ دانش مندانہ فیصلہ نہ ہے اور نہ ہی اس سے امن کا قیام دائمی بنایا جا سکتا ہے۔ ٹرمپ انتطامیہ کو یہ بات یقیناً بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دے گی، جہاں غیر مسلم معاشرے میں مسلمانوں کی حمایت میں لاکھوں کی تعداد میں غیر مسلم موسم کی شدت اور ٹرمپ کے سخت رویے کے باوجود احتجاجی ریلیاں نکال رہے ہیں۔ ٹرمپ کے آرڈر جاری ہونے سے قبل بھی واشنگٹن میں خواتین کا ملین مارچ تھا، جن کا کہنا تھا کہ ہم اپنے مسلم ہم وطنوں کی حمایت و حفاظت کے لئے میدان میں آئیں گے۔ اسکارف پہنیں گی اور اگر مسلمانوں کی رجسٹریشن کا مرحلہ آیا تو اپنے نام مسلمانوں والے رکھ کر رجسٹریشن کرائیں گی۔ اس تمام تر معاملے پر ابھی بھی مسلم دنیا کی خاموشی پر سوالیہ نشان اٹھائے جا رہے ہیں اور بظاہر یہ عمل باعث شرم بھی کہ امریکی غیر مسلم شہری مسلمانوں پر پابندیوں کے فیصلے کے خلاف ڈٹ گئے ہیں، لیکن دوسری طرف سکوت ہے۔

    No comments