آمدہ بجٹ دعوے‘ اندیشے‘ وسوسے
عجب ستم ظریفی ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں جب اپوزیشن میں ہوتی ہیں، بجٹ کو محض اعداد و شمار کا گورکھ دھندا گردانتے ہیں۔ حکومت کو خوب آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ پھر جب خود برسراقتدار‘ اقتدار کی پینگ جھولتے ہیں تو انہیں یہی بجٹ عوام دوست اور نہایت متوازن محسوس ہونے لگتا ہے۔ اچھے وقتوں میں اعدادو شمار کے اختراع کاروں نے بجٹ دستاویز تیارکی تھی۔ جسے پیوند لگا کر ہر سال کام چلایا جاتا ہے۔ چند جملے بدل دیئے جاتے ہیں۔ بعض ٹیکس گھٹا اور کچھ بڑھا دیئے جاتے ہیں۔ یہ بدت اور خاص طریق کی جدت اس لئے تاکہ بجٹ نیا محسوس ہ۔ گزشتہ ایک بجٹ کی دلچسپ صورتحال ملاحظہ ہو، جب بعض ٹی وی چینلز نے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا تھا کہ مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی کا بجٹ چرایا اور نقل کیا ہے۔ ہمارے استاتذہ اکثر ایک جملہ ارشاد فرماتے کہ ’’میاں نقل کے لئے عقل کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔ اس نقل میں عقل کے فقدان کی واضح جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ چونکہ اس بجٹ میں ایک جگہ صدر آصف علی زرداری کا نام بدل کر صدر ممنون حسین سے نہیں بدلا گیا تھا۔ ذرا طرفہ تماشا دیکھیں، پیپلز پارٹی جس نے خود ہی بجٹ اپنے دور حکومت میں پیش کیا تھا وہ بھی مسلم لیگ ن کے پیش کردہ بجٹ پرتنقید کر رہے تھے۔ بہرحال ہر سیاسی جماعت دوسرے صوبے کی حکومت کے بجٹ کو بھی قبول نہیں کرتی۔ یوں ہر حکومت محض اپنے بجٹ کو متوازن اور عوام دوست قراردینے کے پورے جتن کرتی ہے۔
قارئین، 3 جون کو قومی اسمبلی میں قومی بجٹ پیش کرنے کے لئے حکومتی سطح پر تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ اس ضمن میں آئندہ مالی سال 2016-17ء کے وفاقی بجٹ کا حجم 4500 ارب روپے کے لگ بھگ رکھے جانے کے امکانات ہیں۔ یہاں ایک عام آدمی کے لئے بجٹ جیسے اعداد و شمار کے گورکھ دھندے کو سمجھنا انتہائی دقیق امر ہے۔ مگر اس کے باوجود اس کی دلچسپی کا پہلو بجٹ جیسی ناموافق چیز میں مضمر ہے۔ جس کی ایک وجہ یہ کہ ا سکی سال بھر کی آمدن‘ اخراجات‘ ضروریات اور چھوٹی موٹی خواہشات کی تکمیل کا دارومدار بجٹ میں پیش کئے گئے اعدادو شمار پر منحصر ہوتا ہے۔ ہر حکومت بجٹ کے ضمن بلند بانگ دعوے کرتے ہوئے میدان میں کودتی ہے۔ خواہ مخواہ عوام کی آنکھ میں دھول جھونکنے کی ناکام اور قدرے کامیاب کوشش کرتی ہے۔ یہ بجٹ عوامی ہے اور عام آدمی پر اس کا بوجھ نہیں پڑے گا بلکہ اس سے ملکی ترقی اورخوش حالی کی نئی راہیں کھلیں گی، جیسی غیر منتقی اور غیر استدلالی باتیں کی جاتی ہیں۔ سابقہ روایت کو برقراررکھتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے عرض کیا کہ آمدہ بجٹ میں ٹیکس گزاروں پر مزید بوجھ نہیں ڈالیں گے‘ مگر ٹیکس نادہندگان کی زندگی اجیرن کر دیں گے۔ مزید برآں ترقیاتی اور دفاعی بجٹ میں اضافہ اور اخراجات کم کر کے ترقی کی شرح میں اضافہ کریں گے‘ جیسے ارشادات ہم نے سنے۔ مگر حقیقت اس کے برعکس کچھ اس طرح سے ہے کہ اگر روز مرہ کی اشیاء سستی ہوتیں اور عام آدمی کو زیادہ سے زیادہ سہولیات میسر آتیں تو اسے ہم عوامی بجٹ کہلانے پر بضد ہوتے۔ اسی طرح اگر روزمرہ کی اشیاء پہلے سے بھی زیادہ مہنگی ہو کر عام آدمی کے مسائل میں اضافے کا موجب بنیں تو بہتری کی صورت حالات حکومتی دعوؤں تک ہی محدود ہو جاتی ہے۔ آمدہ بجٹ برائے سال 2016-17ء میں ڈیڑھ دو سو ارب کے نئے ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے۔ خدا کے لئے حکومت کے اس عمل میں ہم یک زبان ہیں کہ ٹیکس ضرور وصول کیا جائے مگر لازم ہے ٹیکس کا شکنجہ اربوں مالیت کے شاپنگ پلازوں‘ ہاؤسنگ سوسائٹیز‘ محلات‘ فارم ہاؤسز اور جائیدادوں کے مالکوں پر کسا جائے۔ یقین جانیئے حکومت کو ریونیو میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔ لیکن اگر ٹیکس کا تمام بوجھ تنخواہ دار طبقہ اور عوام پر ڈال دیا گیا تو مہنگائی کا ایٹم بم یہ ثابت کر دے گا کہ یہ واقعی "عوامی بجٹ" ہے۔ جس میں عام آدمی پستا چلا جائے گا۔ بجٹ میں پرچون فروشوں تاجروں کے ساتھ ہونے والے سلوک پر آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ جس میں ان تاجروں کو بھی ٹیکس کے نئے نظام میں لایا جا رہا ہے۔ جس سے حکومت کو بھاری ریونیو کے حصول کی توقع‘ جبکہ ان چھوٹے تاجروں کو زندگی گزارنے کے حق سے محرومی کا خدشہ ہے۔ تعلیم کی خاطر بلند دعوؤں کے برعکس سٹیشنری پر حاصل زیرو ریٹنگ کی سہولت واپس لے کر ٹیکس عائد کئے جانے کا امکان ہے۔ سوال یہ ہے کہ حکومت سٹیشنری پر ٹیکس عائدکرے گی تو سٹیشنری مزید مہنگی ہو جائے گی۔ جو کسی صورت درست فیصلہ نہیں ہوگا۔ محض یہی نہیں بلکہ اس نئے بجٹ میں بھی صحت اور تعلیم کے منصوبوں کے لئے دوسرے شعبوں کی نسبت کم فنڈز رکھے گئے ہیں۔ یہ تمام حالات دیکھ کر یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ تعلیم اور صحت کے شعبے میں بہتری حکومتی ایجنڈے کا حصہ ہی نہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ حکومت ان شعبوں کو بوجھ سمجھ کر چلاتی ہے۔ جبکہ ترجیحات کوئی اور ہیں۔ نئے بجٹ کی تجویز میں اس بات کو ضروری دیکھا جانا چاہئے کہ حکومت ٹیکس کے بدلے عوام کو کیا سہولتیں فراہم کر رہی ہے۔ اگر حکومت ان کے جان و مال کے تحفظ کے علاوہ تعلیم و صحت کی سہولتیں فراہم نہیں کر پاتی تو یہ اس کی ناکامی تصور کی جائے گی۔ حکومت عام آدمی کے حالات بہتر بنانے کی جانب توجہ دے تو ترقی اور خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے ورنہ سب دعوے ہی دعوے ہیں حقیقت کچھ اور ہے۔