اے ہوا، تُو سُن رہی ہے؟
جھیل کی سطح پر اشعار لکھنے والی اور پھر اسے مٹا دینے والی ہوا، خزاؤں میں آہیں بھرتی ہوا، تو گلاب کے پھولوں سے سرگوشیاں کرتی ہے، تو شہرت کی گلیوں سے بیماریوں کے جراثیم اور ٹیلوں سے پھولوں کی مہک لے اُڑتی ہے، تُو سُن رہی ہے؟ تو اطراف عالم کا قاصد ہے، آج میرا پیغٓم تیرے لئے ہے، چند باتیں جو میں تیرے متعلق محسوس کرتا ہوں، آج وہ تو سن!
اے ہوا، تُو خاموشی کے نشے میں چور، لڑکھڑاتی چلتی ہے اور کبھی شدت الم میں آہیں بھرتی گزر جاتی ہے۔ تیری آواز تو سنتے ہیں مگر تیرا مشاہدہ نہیں کر پاتے، تیری موجودگی کا احساس بہت ہے مگر دکھائی کبھی نہیں دیتی۔ تو میرے لئے محبت کا سمندر ہے، جو میری روح کو اپنی موجوں سے دھکیلتا ہے، مگر کبھی ڈبوتا نہیں، میرے دل سے کھیلتا بھی ہے لیکن اس میں کوئی حرکت نہیں پیدا ہوتی۔
اے ہوا، تیرا ٹیلوں کے ساتھ چڑھنا، وادیوں کے ساتھ اُترنااور میدانوں کے ساتھ پھیلنا بامقصد ہے۔ کیونکہ تیرے چڑھنے میں عزم ، تیرے اُترنے میں رقت اور پھیلنے میں خوشنمائی ہے۔ مجھے لگا تُو رحم دل بادشاہ ہے، جو بے کس غریبوں سے رواداری سے کام لیتا ہے اور مغرور طاقتوروں کو اپنے اقتدار کا تماشا دکھاتا ہے۔
اے ہوا، خزاں میں تُو وادیوں میں روتی ہے، تیرے رونے میں درخت بھی روئیں۔ جاڑے میں تُو شدت سے بھڑکتی ہے، تیرے بھڑکنے سے تمام فطرت ہیجان میں آجاتی ہے۔ بہار میں تُو کمزور سی ہو جاتی ہے، تیری کمزوری سے کھیت تندرست ہو جاتے ہیں۔تُو گرمیوں میں آرام و سکوں کی چادر اُوڑھ کر کہا ں چھپ جاتی ہے؟ احساس ہونے لگتا ہے تُو مردہ ہے، جسے سورج نے اپنے تیروں سے مار کر اپنی حرارت میں کفنا دیا ہے۔
اے ہوا، تُو خزاں میںآہیں بھرتی ہے اور درختوں کو ننگا ، بوچا کردینے کے بعد انکی خجالت پر ہنستی ہے! جاڑے میں کیا غضب ناک ہوتی ہے یا راتوں کی برف سے قلعی شدہ قبروں کے گرد ناچتی ہے؟ کیا تُو بہار میں بیمار ہوتی ہے؟ کیا تُو گرمیوں میں مُردہ ہو جاتی ہے، یا پھلوں8 کے دل، انگوروں کی بیل اور ناکارہ کھجوروں کے ڈھیر میں جاگتی ہے؟
اے ہوا، تو شہر کی گلیوں سے بیماریوں کے جراثیم اور ٹیلوں سے پھولوں کی مہک لے کر اُڑتی ہے اور یہی کام تو ان بڑی ہستیوں کا ہے جو خاموشی سے زندگی کی تکلیفیں برداشت کرتے ہیں اور بسکون واطمنان اس کی مسرتوں سے دوچار ہوتے ہیں۔ تُو گلاب کے پھولوں سے سرگوشیاں کرتی اور اسے وہ انوکھے بھید بتاتی ہے جن کا مطلب سمجھ کر کبھی تو وہ بے چین ہوتا ہے اور کبھی مسکرانے لگتا ہے اور یہی دیوتا انسان کی روحوں کے ساتھ کرتے ہیں۔
اے ہوا، تُو یہاں آہستہ آہستہ چلتی ہے، وہاں پانی کی رفتار تیز کر دیتی ہے اور وہاں سے بڑھ کر دوڑنے لگتی ہے، لیکن ٹھہرتی کہیں نہیں، یہی حال تو انسان کی فکر کا ہے، جو حرکت سے زندہ ہے، اگر سستی اور بے عملی ہو تو مَر جاتا ہے۔ تُو جھیل کی سطح پر اشعار لکھ کر مٹا دیتی ہے، ایسے ہی جیسے محتاط و ذمہ دار شاعر یہ سب کرتا ہے۔
اے ہوا، تو جنوب سے محبت کی طرح گرم ہے، شمال سے موت کی طرح ٹھنڈی ہے، مشرق سے روحوں کے لمس کی طرح لطیف اور مغرب سے شدید نفرت کی طرح بسرعت تمام آتی ہے۔ کیا تُو زمانہ کی طرح متغیر ہے؟ یا کہ اطراف عالم کی قاصد بن بیٹھی ؟ تُو تو ان کا وہ پیغام ہم تک پہنچاتی ہے، جو تجھ پر بھروسا کرکے تیرے سپرد کر دیتے ہیں۔
اے ہوا، تو غضب ناک ہو کر ریگستانوں میں چلتی ہے اور انتہائی سنگ دلی سے قافلوں کو پامال کرے ریگ کی تہوں میں انہیں دفنا دیتی ہے۔۔۔ تو کیا تُو یہی وہ مخفی سیال ہے؟ جو صبح کی شعاعوں کے ساتھ شاخوں کے پتوں میں در آتا ہے اور خوابوں کی طرح وادیوں کے موڑ پر تیزی سے بہتا ہے۔ جہاں پھول تیرے شوق میں لہلہاتے ہیں اور گھاس تیرے انفاس سے مخمور ہو کر ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالتی ہے۔
اے ہوا، تو ازراہ ظلم سمندروں میں ہیجان آفریں ہوتی ہے اور ان کے گہرائیوں کے سکون کو حرکت میں بدل دیتی ہے، یہاں تک کہ وہ بپھر جاتا ہے اور گرداب کی شکل میں اپنا منہ کھول کر جہازوں اور ان کے مسافروں کو ایک دم نگل لیتا ہے۔ ۔۔ تو کیا تُو ہی وہ محبت پیشہ ہوا ہے، جو مکانوں کے آس پاس اچھلنے کودنے والے بچوں کی لٹوں سے ازراہ محبت کھیلتی ہے؟
اے ہوا، تُو ہماری روحوں، آہوں اور سانسوں کو کہاں اُڑا لے جا رہی ہے؟ ہماری مسکراہٹوں کے نقوش کو کہاں لے جانا چاہ رہی ہے؟ تُو ہماری دلوں کی اُڑتی ہوئی چنگاریوں کا کیا بنائے گی؟ کیا تُو انہیں شفق سے پرے لے جائے گی؟
ٍ اے ہوا، رات کی خاموشی میں تجھ پر اپنے اسرار ظاہر کرتے ہیں اور صبح کے وقت آنکھیں، پلکیں جھپکا جھپکا کر تجھے اپنی آغوش میں جگہ دیتے ہیں ۔توکیا دلوں نے جو کچھ محسوس کیا اور آنکھوں نے جو دیکھا ، تجھے یاد ہے؟
اے ہوا، کیا تُو یہ آواز، یہ فریاد اور یہ پکار اور یہ شور سُن رہی ہے؟ یا اُن انسانوں کی مثال ہے، جن کی طرف ہاتھ پھیلتے ہیں اور وہ کوئی توجہ نہیں کرتے، جن کی سمت آواز بلند ہوتی ہیں اور وہ نہیں سنتے؟ اے سننے والے کیلئے زندگی،کیا تُو سُن رہی ہے؟