عید اورعوامی محرومیاں
اُمتِ مسلمہ میں رمضان المبارک کے مہینے کو خاص تقدس حاصل ہے۔ ماہِ صیام میں خصوصی عبادات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ eعبادات میں روزے کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ روزے کی یوں توترکیب یہ بتائی جاتی ہے کہ روزے دار کو بھوک پیاس کی اہمیت کا اندازہ ہو۔ بطورِ خاص ان طبقات کو جن کی لغت میں بھوک کا لفظ ہی غائب یا سرے سے موجود نہیں ہوتا۔ تاہم یہ دو فیصد مخلوق کا اوّل تو روزہ ہی نہیں ہوتا ثانیاً اگر بفرضِ محال رکھ بھی لیتی ہے تو اس کا اس قدر انتظام کیا جاتا ہے کہ روزے کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ بھلا ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں روزہ کیا بگاڑ لے گا؟ مذکورہ طبقے کو بھوک کا احساس تو برائے نام ہی ہوتا ہے۔ غور کیجئیے رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت تو ان لوگوں کیلئے ہوتی ہے جسے ہم غریب طبقہ گردانتے ہیں۔ جو سحری کے لوازمات ٹھیک سے پورے نہیں کر پاتے اور نہ ہی افطاری میں کوئی مناسب انتظام کہ سارے دن کی بھوک کو مٹایا جا سکے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ طبقہ اپنی اذیت سے بھر پور زندگی میں رمضان اور روزوں کے تقدس کو اپنی زندگی کی اوّلین ترجیح بنا لیتا ہے۔ ہم نے اکثر بڑوں سے سنا کہ عید روزوں کا انعام ہوتی ہے۔ عید وہ مخصوص دن ہے جسے پُر مسرت بنانے کا ہر اہتمام ضروری سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اس ملک میں جہاں 53 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہوں، وہاں تو رمضان کے روزوں کے علاوہ بھی بے شمار روزے زندگی کا حصہ ہوتے ہیں۔ ان غریب طبقات کی عید بھی محرومیوں کی نظر ہوجاتی ہے۔ یہ بجا ہے کہ رمضان المبارک میں بھوک سے نا واقفوں کو بھوک کا احساس دلایا جاتا ہے۔ مگر کلیدی سوال یہ کہ آخر بھوک پیدا ہوتی ہی کیوں ہے؟ کیا بھوکے ملکوں میں اناج کی کثرت نہیں ہوتی؟ ایسا تو کچھ نہیں تاہم مسئلہ یہ ہے کہ آبادی کی بھاری اکثریت کے پاس اناج سمیت دوسری زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کی قوتِ خرید باقی نہیں رہتی۔ ان کے پاس دولت نہیں ہوتی مگر دولت پیدا کرتے ہیں۔۔۔ کتنی عجیب بات ہے ناں؟ پھر یہ دولت سے محروم کیوں ہوتے ہیں؟ کیا یہ محرومی ان کا مقدر ہے؟ یا پھر اس نظام کی دین، جو صدیوں سے ان طبقات کی زندگیوں پر مسلط رہا ہے؟ انسانی معاشرے کئی زمانوں سے غریب، امیر، محتاج اور اغناء میں بٹے ہوئے ہیں۔ وہ لوگ جو تعداد میں 90 فیصد ہیں وہ غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ اور 2 فیصد دولت مند اشرافیہ قوم کی80 فیصد دولت پر مقبوض ہے۔ اپنی زندگیوں کو جنت نما بنائے ہوئے ہیں۔ ان غریب طبقات کے ذہنوں میں اپنے کارندوں کے ذریعے یہ بات بٹھائے ہوئے ہیں کہ غریبی اور امیری سب مقدر کے کھیل ہیں۔ اس حوالے سے من گھڑت فلسفے بھی موجود ہیں۔ جیسے زندگی ایک امتحان ہوتی ہے۔ کہنے کا مقصد بھوک، بیماری، افلاس سب ایک امتحان ہے۔ جو لوگ اس امتحان میں استقامت سے کام لیتے ہیں، وہ کامیاب ہوتے ہیں۔ یعنی تمام اذیتوں کو بخوشی برداشت کرنے والے جنت کے حقدار ہوتے ہیں۔ بھوک، بیماری، بیکاری کا ثمر جنت ہے۔ اس منطقی فلسفے کو ہمارے پسے طبقے کے دماغوں میں ایسے بھر دیا گیا ہے کہ ایسے طبقات بھوک، افلاس، بیماری کو طبقاتی استحصال کی ایک شکل سمجھنے ہی سے قاصر ہیں۔ ان بلاؤں کو قسمت کا لکھا سمجھ کر چپ چاپ سہہ جاتے ہیں۔ اس قسم کے پروپیگنڈے کے ساتھ دو فیصد اشرافیہ نے اپنے طبقاتی مفادات کے تحفظ اور بقا کیلئے یہ پروپیگنڈا بھی کر رکھا ہے کہ جو لوگ ان طبقاتی مظالم کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرتے ہیں یا ان مظالم کے خلاف عوام میں آواز اُٹھاتے ہیں وہ کافر ہیں، دین دشمن ہیں۔ بالادست طبقات کی یہ شاطرانہ چالیں اس لئے کامیاب رہتی ہیں، کہ 90 فیصد آبادی تعلم اور طبقاتی شعور سے نا بلد ہوتی ہے۔ انہیں تعلم اور طبقاتی شعور سے نابلد رکھنے کیلئے انہیں علم کے حصول اور اس استطاعت سے محروم رکھا جاتا ہے۔ دوسری طرف انہیں مختلف حوالوں سے اس طرح بانٹ دیا جاتا ہے کہ یہ طبقات آپس میں ہی لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے نام نہاد رہنماؤں نے ہمیں پاکستانی بنانے کے بجائے سندھی، مہاجر، پٹھان، سرائیکی اور بلوچی وغیرہ بنایا اور بانٹ کر رکھا۔ اسی ڈگر پر انہیں مسلمان رہنے دینے کے بجائے شیعہ، سنی، بریلوہی اور دیوبندی جیسے مختلف خانوں میں دبوچے رکھا۔ ہم پلہ، ہم جنس، ہم مذہب اور ہم وطن لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف اس طرح برسرپیکار کر دیا گیا کہ خانہ خدا کو بھی شیعہ، سنی، دیوبندی میں تقسیم کر گیا ہے۔ یہاں بے چارے عوام عید کے روز بھی اپنی اپنی مسجد ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ اس تقسیم کو مزید مستحکم اور گہرا کرنے کیلئے اب دنیا، بلخصوص مسلم ممالک میں انتہا پسندی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ مسلم دنیا کے علاوہ پوری دنیا میں اسلام کا بول بالا کرنے کے نام پر ایسی وحشیانہ تنظیمیں بنائی جا رہی ہیں، جو مسلم برادری کو تقسیم کرکے قتل کرنا عین ثواب سمجھتی ہیں۔ یہ طاقتیں نہ صرف منظم ریاستی طاقتوں سے برسرپیکار ہیں بلکہ ہر جگہ انہیں پیچھے دھکیل کر آگے بڑھ رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انہیں اس قدر بھاری جنگی طاقت آخر فراہم کون کرتا ہے؟ تو جان لیجیئے ان انتہا پسند طاقتوں کو ریاستی طاقتوں جیسی طاقت وہ ملک فراہم کرتے ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرست ہیں۔ جن کا مقصد مسلمانوں کی اجتماعی طاقت کو پارہ پارہ کر کے انہیں اس طرح آپس میں گتھم گتھا کر دینا ہے کہ وہ سرمایہ دارانہ سامراجی ملکوں کیلئے خطرہ نہ بن سکیں۔ حقیقت میں یہ مک آقا اور غلام، غریب اور امیر، محتاج اور غنی کے اس کلچر کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ جب رمضان جیسے مقدس مہینے اور عید جیسی خوشیوں کے دن کو غریب عوام کیلئے مایوسی اور احساسِ مائیگی و کم تری کے دن میں بدل کر رکھ دیا گیا ہے۔