اے ریگِ رواں اب کسی چشمے کا پتہ دے!
ظلمت شب سے شکایت کیسی محسنؔ
وہ تو سورج کو تھے آئینہ دکھانے والے
قوم پر احسانات کی بوچھاڑکرنے والے حکمرانوں پر محسنؔ نقوی کے اس شعر کا مفہوم صادق آتا ہے، جو بدحالی کے دور میں بھی عوام کیلئے دودھ اور شہد کی نہریں بہا دینے کا دعویٰ بغیر کسی اخلاقی گراوٹ کے کرتے ہیں۔ حکمرانوں کی جاہلیت کی انتہا دیکھنے کو ملتی ہے، جو عوام کو ان کا حق دیتے ہوئے بھی پوائنٹ سکورنگ سے گریز نہیں کرتے بلکہ عوام میں یہ تاثر نمایاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر ہم ایسا نہ کرتے تو عوام ان کا کیا کر لیتے؟ صرف کہنے کی بات نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب آپ سماج میں نئی سوچ، نئی فکر، نئے خیالات کے داخلی راستے، دروازے کھڑکیاں
بند کرتے ہیں تو شدید گھٹن پیدا ہوتا ہے، حبس کے باعث سماج کی جملہ توانائیاں دم توڑ جاتی ہیں۔ نتیجتاً نفس، ضمیر، ذہن اور دل بھی جواب دے دیتا ہے۔
بند کرتے ہیں تو شدید گھٹن پیدا ہوتا ہے، حبس کے باعث سماج کی جملہ توانائیاں دم توڑ جاتی ہیں۔ نتیجتاً نفس، ضمیر، ذہن اور دل بھی جواب دے دیتا ہے۔
قارئین کرام، دنیا بھر میں ایک فارمولا اپنایا گیا ، جس کے تحت پٹرول کی قیمتوں کا تعین کیا جاتا ہے۔ اگر عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم ہوں تو اسکا فائدہ براہ راست عوام کو پہنچایا جاتا ہے، لیکن اگر کوئی حکومت عوام کے حق پر قبضہ کر لے تو دل جو چاہتا ہے، وہ سب جانتے ہیں۔۔۔ اس ضمن پٹرول کی قیمتیں 15,15روپے بڑھاتے وقت حکمرانوں کو عوام کا کوئی خیال نہیں رہتا لیکن جب عوام کو ان کا حق دینا ہو تو ہمارے "وزیراعظم" فخریہ طور پر اعلان فرماتے ہیں کہ اے عوام! ہم نے 5روپے کم کر دیئے ہیں، جی بھر کر فائدہ اُٹھاؤ۔۔۔ حد یہ ہے کہ کوئی پوچھتا نہیں کہ جناب عالی، دماغ آپکا خالی، یہ کونسا احسان کیا ہے، جو جتلا رہے ہیں؟
پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کا تیسرا دور مئی 2013ء کو شروع ہوا تو اس وقت عالمی سطح پٹرول کی قیمت فی بیرل95 ڈالر تھی جبکہ مقامی سطح پر پٹرول 103روپے فی لیٹر فروخت ہو رہا تھا، حکوت 24 روپے فی لیٹر بچت کر رہی تھی۔ جبکہ آج عالمی سطح پر 25 سے 28 ڈالر فی بیرل قیمت ہے اور ہماری حکومت 45 روپے سے زائد ٹیکس کی صورت بٹور رہی ہے۔ موجودہ حکومت کے اس عمل کے برعکس آصف علی زرداری کی سابقہ حکومت کئی درجے بہتر تھی، جسے 2008ء میں اقتدار ملا تو اس وقت عالمی سطح پر پیٹرول کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھی یعنی 142 ڈالر فی بیرل تھی اور مقامی سطح پر پیٹرول60روپے فی لیٹر فروخت ہو رہا تھا، اس دوران حکومت 22 روپے فی لیٹر عوام کو سبسڈی کی مد میں دے رہی تھی اور سبسڈی کی یہی روش پرویز الٰہی کے دور حکومت میں بھی موجود تھی، لیکن اس بات کا علم نہیں ہو سکا کہ حکومتِ وقت نجانے عوام سے کیا چاہتی ہے کہ وہ اربوں روپے سالانہ پٹرولیم کی مصنوعات کی مد میں عوام سے ہتھیا رہی ہے اور اسے اپنا جائز حق تسلیم کرتی ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ اگر عالمی مارکیٹ میں تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کے مطابق ردوبدل کیا جاتا تو عوام اچھا خاصا ریلیف حاصل کر سکتے تھے۔ مگر آج پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 12 سال کی کم ترین سطح پر ہونے کے باوجود عوام کو اس کا ثمر نہ دینا محض زیادتی ہے۔
آپ ذرا پیچھے 2011ء کا احوال دیکھیں جب میاں صاحب اپوزیشن لیڈر تھے تو دسمبر 2010ء میں عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو 90.69 ڈالر فی بیرل قیمت مقرر ہوئی تو پیپلز پارٹی نے جنوری 2011ء کیلئے پٹرول کی نئی قیمت 6.71روپے فی لیٹر اضافے کے ساتھ 79.69 روپے فی لیٹر مقرر کی تو آپ نے حکومت کے اس عمل کو عوام پر ظلم قرار دیا اور مذمت کی جبکہ اضافہ واپس لینے کا بھی مطالبہ کیا۔ عرض یہ کہ جنوری 2011ء میں "اپوزیشن لیڈر" کا پٹرول کی قیمتوں میں ہونے والے 6.71 روپے اضافے پر ردِعمل اس قدر شدید تھا کہ انہوں نے اس بنیاد پر پی پی پی کے وزیروں کو ہی ن لیگ کی پنجاب حکومت سے چلتا کر دیا تھا۔ جنوری 2011ء جب ہمارے قائد شدید مہنگائی کے دور میں اضافے پر عوام کو زندہ در گور کرنے کے مترادف سمجھ رہے تھے۔ اس وقت تو اب یہی لگ رہا تھا کہ جیسے اس ملک میں کوئی ان سے زیادہ عوام کا ہمدرد نہیں مگر آج یہ سب باتیں 5 برس قبل عوام سے کئے جانے والا مذاق لگ رہی ہیں۔
میں حکمرانوں کے تمام تر دعووں، وعدوں کو ایک طرف رکھ کر ان سے چند سوالات کرتا ہوں کہ وپ پٹرول کی قیمتوں کو چھوڑیں۔ہمیں بتائیں کہ کیا اشیائے ضروریہ کی گرانی پر قابو پا لیا گیا؟ کیا معاشرے سے اور ہمارے ملک سے کالا دھندہ کرنے اور نا جائز منافع خوری پر کسی نے غور کیا؟ کیا دور اُفتادہ علاقوں میں رہنے والے محنت کشوں کے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی گئی؟ کیا پولیس مہذب ہو گئی؟ کیا پبلک ڈیلنگ کرنے والے افسران و اہلکاروں نے رشوت لینا چھوڑ دی؟ کیا قومی و کمرشل بینکوں کے نادہندگان نے اپنے قرضے لوٹا دئیے؟ کیا ارباب حکومت نے خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے 45 فیصد عوام کو دو وقت کی روٹی، تن ڈھانپنے کیلئے لباس اور سر چھپانے کیلئے چھت کا انتظام کر دیا؟ کیا مک مکا، مافیا، سفارش کلچر کا قلع قمع ہو گیا؟ کیا اب ہسپتالوں کے آؤٹ ڈور وارڈوں میں بے زر، بے در ارو بے پر مریض ایڑیاں رگڑتے ، ہلکتے، سسکتے، چیختے چلاتے اور کربلاتے دکھائی نہیں دے رہے؟ کیا ملک میں امن و امان کی صورتحالات کو تسلی بخش قرار دیا جا سکتا ہے؟ اگر ان سوالات کے جوابات نفی میں ہیں تو وزیر اعظم کیوں پیغامِ بہار دیتے ہیں؟ ؟؟
اگر ہم سچ کہنے کی جرات کر سکیں تو جان لیجئیے آج ہماری زندگی کی ڈور ان نقب زنوں اور کم تر لوگوں کے ہاتھوں میں ہے، جنہیں اس بات کا احساس تک نہیں کہ ان کی حرکتوں کے نتائج کیا بر آمد ہوں گے۔ عوام کی اذیت اور تکلیف کو وہی محسوس کر سکتا ہے، جنہوں نے غربت ، بے روزگاری، بھوک پیاس اور گرمی سردی کے تمام موسم ننگے تن برداشت کئے ہوں گے۔ دہشت گردی ، غریب کے استحصال سے ان کا کیا لینا دینا؟ جب یہ ان کا مسئلہ ہی نہیں۔ آخر یہ دعا اور التجا ہے کہ خدارا انسانوں کو زندہ رہنے دو، انہیں چین و سکوں سے زندگی بسر کرنے دو، وقت سے پہلے انہیں قبروں میں نہ اتارو، ان کی قبریں نہ کھودو اور ملک کو قبرستان مت بناؤ۔آخر اے خدا سرمدصہبائیؔ کا یہ شعر اپنے مفہوم پر پورا اترے کہ:
گزری ہے میری عمر سرابوں کے سفر میں
اے ریگِ رواں اب کسی چشمے کا پتہ دے
No comments