ہمارا نظام عدل متنازع کیوں؟
انصاف کا حصول عوام کا حق ہے، عوام کو بلا تخصیص (امیر وغریب) انصاف کی فراہمی ریاست کی اہم اور بنیادی ذمے داریوں میں سے ایک ہے۔ اس ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے معاشرے میں امن وامان کی فضا قائم کی جاتی ہے۔ انصاف کی فراہمی سے معاشرے میں اصلاح کا پیغام جاتا ہے۔ معاشرتی امن و سلامتی کیلئے لازمی بات "انصاف" ہی ہے۔ ایک معاشرہ بھی تب ہی وجود میں آتا ہے جب اس میں عدل و انصاف موجود ہو۔ کیونکہ یہ نظامِ عدل ہی ہے جو معاشرے کے تہذیبی اور فلاحی خدوخال واضح کرتا ہے۔
پاکستان کے عوام کئی حوالوں سے بد نصیبی کا شکار ہیں مگر یہاں جس طرف اشارہ ہے وہ عدل اور انصاف ہے۔ ہمارے ملک میں جلد انصاف کی فراہمی تو دور کی بات انصاف کے تقاضوں کو بھی نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ہمارے عوام قانونی پیچیدگیوں اور گنجلک سسٹم کے چیستان میں اس طرح پھنس کر رہ جاتے ہیں کہ انصاف کے متلاشی اپنا حق حاصل کرنے کیلئے دنیا سے گزر جاتے ہیں مگر انصاف سے محروم رہتے ہیں۔۔۔ انصاف فراہم کرنے والے اداروں کی غفلت و لاپروائی اور قانونی موشگافیوں کے باعث عوام کا سسٹم سے اعتبار اُٹھ گیا ہے۔ مایوسی اس قدر پھیل گئی ہے کہ قانونی مدد لینے سے اجتناب صرف اس لئے کرتے ہیں کہ انہیں انصاف ملے نہ ملے، مگر ان کی جمع پونجی اور وقت کا ضیاع ضرور ہو گا۔ انصاف پر مستزاد پولیس کے محکمے میں سیاسی بھرتیوں، رشوت ستانی، ڈنڈا کلچر نے بھی عوام کو نظام عدل سے متنفر کر دیا ہے۔ سسٹم کی اس نااہلی کا ادراک اور احساس عدالتوں میں بیٹھے جج صاحبان کو بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ایف آئی آر میں تاخیر سے متعلق مقدمے میں ریمارکس دئیے کہ اس دور میں انصاف ملنا تو کجا کسی غریب کی رپٹ درج ہونا بھی کمال ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میڈیا پر کسی واقعے کی بریکنگ نیوز تین منٹ میں نشر ہو جاتی ہے لیکن ایف آئی آر کے اندراج میں چار دن لگتے ہیں۔ ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر کا نقصان غریب اور کمزور کو ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جہاں کیمرہ تین منٹ میں پہنچ جاتا ہے وہاں پولیس کیوں وقت پر نہیں پہنچتی؟ جناب جسٹس صاحب کے ریمارکس چشم کشا ہیں۔ جب انصاف کے حصول میں پہلی سیڑھی ایف آئی آر یعنی فرسٹ انویسٹی گیشن رپورٹ ہی درج نہ ہوگی تو انصاف کیسے ملے گا؟ علاوہ ازیں پولیس کے جائے وقوعہ پر تاخیر سے پہنچنے کا سوال بھی اہمیت کا حامل ہے۔ جبکہ ماضی سے بہت بہتر محکمہ پولیس جدید سہولیات تیز رفتار گاڑیوں سے بھرپور ہے۔ لیکن ان تمام سہولیات کے باوجود اپنی ڈیوٹی سے پہلو تہی برتنا اس بات کا عکاس ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی قانون کی رسوائی کا باعث بنتے ہیں۔
ایک مسلمان ملک ہونے پر ہمیں فخر ہے کہ ہم مسلمان آزادی کے ساتھ کسی دباؤ اور ہتھکنڈے سے محفوظ رہ کر اپنے مذہب اسلام کا نفاذ عمل میں لا سکتے ہیں۔ ہمارے ملک کی بنیاد لا الہ الا اللہ پر رکھی گئی ہے تو پھر کیوں اسلامی جمہوریہ کو اسلامی تعلیمات سے دور رکھا جاتا ہے۔ کیا اسلام کے نظام حکومت میں اقتصادی نظام، حکومتی نظام، معاشرتی نظام، نظام عدل، خارجہ پالیسی اور تعلیمی پالیسی مکمل طور پر شرعی مصادر سے اخذ شدہ نہیں؟ اور اگر ہے تو پھر اسلام کے مکمل اطلاق میں شرمندگی کیوں محسوس کی جاتی ہے۔ جب آفاقی مذہب اسلام ہمیں ہر قسم کی راہنمائی فراہم کرتا ہے تو "اسلامی نظام عدل" کچھ اس طرح ہمارے سامنے ہوتا ہے۔
اسلامی نظام عدل میں تمام مقدمات کا فیصلہ صرف اور صرف اللہ کے قوانین کے تحت کیا جاتا ہے۔ جج کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔ اسے کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی وجہ سے حقدار کو ایک عدالت سے دوسری عدالت کے چکر نہیں کاٹنا پڑتے۔ اور مجرم کو فوری سزا مل جاتی ہے۔ فریقین جج کے خلاف مقدمہ کر سکتے ہیں اگر وہ اسلامی احکامات کی صریح خلاف ورزی یا حقائق کو نظر انداز کر کے فیصلہ صادر کرتا ہے۔ ملزم اس وقت تک بری تصور کیا جاتا ہے جب تک اسکا جرم سو فیصد ثابت نہ ہو جائے۔ چنانچہ ایک شخص کو محض شک کی بنیاد پر گرفتار نہیں کیا جائے گا، نہ ہی سزا سنائی جائے گی۔ آج جھوٹی ایف آئی آر کی مدد سے ایک غریب کو جیل میں ڈالا جاتا ہے جہاں وہ سال ہا سال سڑتا رہتا ہے۔ آج خواتین حدود آرڈیننس کی وجہ سے ظلم کا شکار نہیں بلکہ انگریز کے دیئے گئے procedural lawsکے تحت ہی ظلم کی چکی میں پس رہی ہیں۔ اسلامی نظام عدل میں اعلیٰ اور ذیلی عدالتوں کا تصور نہیں تاہم مختلف نوعیت کے جرائم کی بنیاد پر عدالتوں کی تین اقسام ہیں۔ قاضی محتسب ، قاضی عام اور قاضی مظالم۔ قاضی محتسب معاشرے کے خلاف ہونے والے مجموعی معاشرتی حقوق کی خلاف ورزی سے نمٹتا ہے مثلاً ناپ تول میں کمی یا غیر قانونی تجاوزات وغیرہ۔ قاضی عام دو شہریوں کے مابین تنازعات سنتا ہے نیز ریاست کی خلاف ورزی ہونے والے جرائم بشمول حدود اور تعزیرات کے فیصلے صادر کرتا ہے۔ قاضی مظالم عوام اور ریاست /حکمرانوں کے مابین تنازعات پر فیصلہ کرتا ہے۔ حکمران کا جرم ثابت ہونے کی صورت میں قاضی اسے سزا دینے یا معزول کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ نیز مقدمے کے دوران حکمران قاضی مظالم کو معزول کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ عدالت میں صرف ایک ہی قاضی فیصلے کا مجاز و مختار ہوتا ہے۔ دیگر قاضی اسے فیصلہ دینے میں مشورہ اور مدد دے سکتے ہیں۔ نیز اسلام میں جیوری کا کوئی تصور نہیں۔ جھوٹی گواہی دینے والے کو قرار واقعی سزا دی جاتی ہے۔ نیز لمبے اور غیر ضروری پروسیجرل قوانین سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ نتیجتاً عوام کو فوری اور سستا انصاف مہیا ہو گا۔ عدل مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ چنانچہ اسلامی نظام عدل میں کسی قسم کی کوئی کورٹ فیس یا ٹیکس نہیں ہوتا۔ عدلیہ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ تمام شہریوں کو رنگ ، نسل اور دین سے بالاتر ہو کر ایک ہی نظریے سے دیکھے ۔ سوائے ان مسائل کے جو غیر مسلموں کی ذاتی زندگی سے متعلق ہیں مثلاً شادی بیاہ وغیرہ جن میں ہر شخص کے مذہب کیمطابق فیصلے کئے جاتے ہیں۔اب یہ فیصلہ کرنا آسان ہے کہ اگر مذہب اسلام معاشرتی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھاتا ہے تو پھر دیگر معاملات میں بھی اسلام سے ہی رہنمائی کیوں نہیں لی جاتی؟ کیوں ہمارا اقتصادی نظام، معاشرتی نظام، خارجہ پالیسی ، حکومتی نظام، تعلیمی نظام، نظام عدل اور بینکنگ سسٹم سراسر اسلام کے برعکس ہے؟ ان سوالات کا جواب ہر ذی شعور جانتا ہے مگر وہ غلامی کے سبب اسلام دشمن نظام کا گرویدہ ہی رہتا ہے۔
ہم نے انصاف کی فراہمی کے راستے بند کر کے آج کی نسل کو سزا کے تصور اور اس کی افادیت سے بیگانہ کر دیا ہے۔ یہ نسل انصاف کے حوالے سے اس قدر مایوس ہے کہ اب صرف طاقت کے ذریعے دی گئی سزا کو انصاف اور مؤثر سمجھتی ہے۔ حالانکہ اصل سزا وہ ہے جو طاقت کے بجائے انصاف کی بنیاد پر دی جائے۔ اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور معاشرے میں اصلاحی پیغام جاتا ہے۔ کسی آپریشن کے دوران کتنے ہی دہشت گرد مارے جاتے ہیں ، اسکے وہ اثرات نہیں ہوتے جو انصاف پر مبنی سزاؤں کی صورت سامنے آتے ہیں۔ سزاؤں کا تصور ایک مہذب معاشرے کی اساس ہے۔ اس لئے اسلام نے بھی سخت سزائیں مقرر کی ہیں مگر ساتھ ہی انصاف کو یقینی بنانے پر بھی زور دیا ہے۔ ہمارے معاشرے کو پولیس مقابلوں سے اس لئے پر امن نہیں بنایا جا سکتا کہ اس سے ریاستی دہشت گردی اور جبر کا تاثر ابھرتا ہے۔ اور پھر نظام انصاف کی گرفت کا احساس اجاگر نہیں ہوتا۔ چنانچہ نظام عدل متنازع ہو کر سامنے آتا ہے۔ انصاف کا حصول عوام کا حق ہے، اداروں کی لاپروائی اور غفلت پر ایکشن لیتے ہوئے اس سقم کو دور کیا جائے تو شاید معاشرے میں امن و امان حقیقی شکل میں سامنے آئے گا۔
No comments