• Breaking News

    عورت ماں، بہن، بیٹی اور بیوی ہے!

    تحفظ حقوقِ نسواں بل پر چند دنوں سے تنقید اور توصیف شدت سے جاری ہے، حکومتی حلقے اپنے موقف کی توضیح میں فرنٹ فٹ پر ہیں تو علمائے کرام اور دینی تنظیموں نے بھی بل کی مخالفت کا حق ادا کر دیا ہے۔ مذکورہ بل کو متنازعہ بنانے میں پہل کرنے والے مولانا فضل الرحمٰن نے گزشتہ روز وزیر اعظم پاکستان سے اس حوالے سے ملاقات بھی کی، مولانا صاحب نے میاں نواز شریف سے استفسار کیا کہ آخر بل اتنی عجلت میں کیوں لایا گیا اور منظور بھی کروا لیا گیا؟ بل کے تمام پہلوؤں پر غور وخوز ہونا چاہئیے تھا، مزید برآں علماء سے مشاورت ہونا چاہئیے تھی۔ مولانا کی اس فکر انگیزی پر وزیراعظم نے مولانا کو تحفظات دور کرانے کی یقین دہانی کروائی۔
    قارئین کرام، اگر پنجاب اسمبلی کا منظور کردہ "تحفظ نسواں بل" عورتوں کے حقوق سے متعلق ہوتا تو شاید متنازعہ نہ بنایا جاتا، یعنی معدوم امکانات تھے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ مسائل کو حقوق کا نام دے کر ایک خاص طبقے کو اُکسایا جاتا ہے، پھر اس پر دنگل سجائے جاتے ہیں اور مقصد لاحاصل ہی رہتا ہے۔ عورتوں کے حقوق پر روشنی ڈالی جائے تو حوّا کی بیٹی کے وہ چند بنیادی حقوق ہیں جس پر کوئی منطقی بات ہی نہیں کرتا۔ زیور تعلیم سے آراستہ کیا جانا، بچپن سے جوانی تک نان و نفقہ کا انتظام و تحٖظ، جہیز کی لعنت سے آزاد کیا جانا، فکرِ معاش سے بے فکر کرنا، وراثت میں باقاعدہ حصہ دلایا جانا وغیرہ وغیرہ ایسے حقوق ہیں جن بارے ہمیں سوچ و بچار اور مؤثر لائحہ عمل و قانون سازی کی اشد ضرورت ہے۔ تحفظ حقوقِ نسواں کا اہم تقاضہ ہے کہ عورت کو وہ حقوق ملیں جس کا تصور اسلام نے دیا ہے۔ جب اسلام کے ظہور سے قبل عورت غلامی کی زنجیر میں جکڑی ہوئی تھی، جسے دوسرے یا تیسرے درجے کی مخلوق گمان کیا جاتا تھا، جسے سماجی و معاشی حقوق تو درکنار بنیادی انسانی حقوق بھی میسر نہ تھے، یہ اسلام ہی تھا جس نے تاریخ میں پہلی مرتبہ عورت کو مرد کے مساوی حقوق سے نوازا۔ پوری کائنات کے ربّ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر ایک درجے کی فوقیت دی، یہ فوقیت گھریلو انتظام کو برقرار رکھنے اور احسن انتظام سے چلانے کیلئے دی۔ تحفظ حقوقِ نسواں بل کی رو سے عورت اکیلے سفر کر رہی ہو تو اسے ڈر نہیں ہونا چاہئیے، ورکنگ وومن کے اخترام کا مکمل اہتمام ہونا چاہئیے، وہ ہسپتال ، دفتر، گھر، درسگاہ غرض جہاں بھی ہو اسے عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ یہ تمام عورت کے مسائل ہیں نہ کہ عورت کے حقوق۔۔۔ مسائل کے خلاف قانون سازی اور قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنانے پر معاشرے کے تمام افراد ہی خوش اور رضا مند ہیں۔ لیکن بل کا متنازعہ حصہ جس سے یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ سیکشن 7 کے نفاذ سے خاندان جڑیں گے نہیں بلکہ ٹوٹیں گے۔۔۔ ہمیں اس حقیقت کا بھی اعتراف کرنے میں کوئی تامل نہیں ہوناچاہئیے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستان میں طلاق کی شرح کئی گنا بڑھ چکی ہے اور یوں گھریلو معلاملات میں حکومتی مداخلت سے یہ شرح اور زیادہ ہونے کے امکانات روشن ہیں، اس حقیقت کا عملی شاخسانہ کہ گزشتہ روز معمولی تشدد یا جھگڑے پر بیوی نے شوہر کو جیل بھجوا دیا، شوہر نے ضمانت پر رہا ہوتے ہیں بیوی کو طلاق دے دی "تحفظ حقوقِ نسواں بل کے ثمرات کی یہ پہلی مثال ہے۔" کچھ بگڑا نہیں کہ ابھی بھی مسائل و حقوق کو آپس میں گڈ مڈ ہونے سے بچا لیا جائے، خاندانی مسائل کو حقوق کا نام دے کر معاشرے کا توازن بگاڑنا قطعی طور پر دانشمندی نہیں ہے۔ ہمیں قانون سازی اور قانون کی عمل درآمدی سے قبل تصویر کے روشن اور تاریک دونوں پہلو دیکھنے چاہئیں۔
    بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایک خاص طبقہِ فکر ایسا بھی ہے جو ہر مسئلے کا ذمہ دار اور جواز عورت کو ہی گردانتا ہے، اس قنوطی سوچ کا حامل یہ طبقہ عورت کو ذہنی اور عملی طور پر پابندِ سلاسل رکھنا چاہتا ہے، یہ تاویلات ایسی ہیں جن کا کوئی جواز نہیں۔ سوال یہ ہے کہ عورتوں پر تشدد کا خاتمہ مردوں کے خلاف سازش کیسے بنا؟ تیزاب اور جسمانی اذیتوں کے خلاف پروٹیکشن اور شیلٹر ہومز کا قیام کس طرح جائز نہیں؟ کوئی ان سے پوچھے کیا عورت کی کوئی منشا نہیں ہے، کیا یہ با اختیار نہ بنے، کیا وہ صرف مخصوص خدمات سرانجام دے، روبورٹ کی طرح عمل کرے، نہ کسی خواہش کی خواستگار نہ کسی شے کے حصول کی تمنا، تو کیا وہ شرف انسانی کی اہمیت حاصل کرنے کے لائق نہیں؟ اس مخصوص طبقے کا دوہرا معیار یہ بھی ہے کہ کیا کبھی انہوں نے عورت کے ساتھ ظلم و زیادتی کی مخلافت میں آواز اُٹھائی؟ کبھی کسی شہر میں 5 سال،7 سال کی کم سن بچیوں کے ساتھ زیادتی کے خلاف احتجاج کیا؟ کیا کبھی اونچے ایوانوں میں اس ظلم و استحصال اور عورت کے معاشی و سامجی قتل کے خلاف زبان دراز کی؟ اگر ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے تو کس منہ سے یہ صاحبان عورتوں پر تشدد کے خلاف اس بل پر نوحہ گر ہیں؟ کیا یہ باپ بن کر نہیں سوچتے اور ایکٹ کی مخالفت میں دلائل دیتے ہیں؟
    سوباتوں کی ایک بات حکومت کو یہ بل "حرف آخر" بھی نہیں سمجھنا چاہئیے، کسی تخلیق کی خوشنمائی اور دلکشی تب ہی ہے اگر اس میں ترمیم اور بہتری کی گنجائش باقی رہنے دی جائے، بالفرض اگر یہ بل عجلت میں ہی پاس کیا گیا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ری ویو کرلیا جائے، اسلامی نظریاتی کونسل اور علماء کی مشاورت سے قرآن و سنت کی روشنی میں ترمیم شدہ نیا بل آنے میں بھی کوئی قباحت نہیں۔ اسلامی ریاست ہونے کے ناطے ہمارا ملک پاکستان ایسے قانون کا متحمل نہیں ہو سکتا جو قرآن و سنت کا عکاس نہ ہو۔ حکومت کیلئے لازم ہے کہ اس مسئلہ کو اسلامی نظریاتی کونسل ، دینی جماعتوں، علماء اور آئینی و قانونی ماہرین کی مشاورت سے بات چیت کے ذریعے حل کرے تاکہ قوم میں انتشار و افتراق کو ہوا نہ ملے اور ملک امن و استحکام اور تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن رہے۔ اس مسئلہ کو ہر حوالے سے پرکھنا چاہئیے تاکہ ہمارے کلچر سے متصادم نہ ہو، ہماری روایات سے متصادم نہ ہو، ہمارے اسلام اور قرآن و سنت کے خلاف نہ ہو۔ یہ بات اس صنف کی ہے جس کے بطن سے اولیا و صالحین، سائنس دان و دانشور اور ڈاکٹر پیدا ہوتے ہیں اور پھر ہمارے معاشرے میں عورت ایک وقار اور عزت کا دوسرا نام ہے۔ کیونکہ یہ "عورت ماں، بہن، بیٹی اور بیوی ہے!"

    No comments