میڈیا کی خاموشی
یہ موضوع ازحد حساس اور نازک ہے کہ جس پر کسی کے حق یا مخالفت میں دلائل سے گریز کیا جانا ہی بہتر ہے۔ اسلام نے بہت پہلے یہ لان ڈرافٹ کر دی تھی کہ "ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔" یہ مسئلہ اس قدر پیچیدہ ہے کہ ہم اسے چھیڑنا ہی نہیں چاہتے کیونکہ حالیہ پھانسی میں ناموس رسالت کا تذکرہ ہے اور پھر جب عدالتی فیصلہ آگیا اور صادر بھی ہو چکا ہے۔ اگرہم اچھے مسلمان ہیں تو ہمیں اسوہ رسول ﷺ اور خلفائے راشدین کے نظام کو اپنانا چاہئیے، جہاں قاضی اور منصف کے فیصلوں کے سامنے کسی کو پر مارنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ لیکن یہاں ہمیں تمام تر دینی جذبات سے جدا ہو کر سوچنا ہے کہ کیا اس معاملے پر انصاف نہں8 ہونا چاہئیے تھا اگر سلیمان تاثیر کے پسماندگان نے معاف نہیں کیا تو پھر کونسا اسلامی، مغربی یا اخلاقی قانون تھا جو رہائی کا راستہ بتا سکتا تھا؟ بظاہر تو کوئی راستہ نہیں دکھائی دیتا۔ تو اس ضمن حکومت کیا کرتی؟ لیکن سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ ہم بحیثیت قوم قانون کی حکمرانی کی طرف کب جائیں گے؟ قانون کی موجودگی میں کوئی شخص کسی دوسرے کو کافر، مرتد قرار دے اور قتل کردے، یہ روش اتنی بھیانک ہو سکتی ہے کہ جس سے اسلام کا چہرہ ہی مسخ نہیں ہوگا بلکہ انسانیت کچلی جائیگی۔ ایک ضابطہ، ایک قانون کا مقصد لوگوں کو آرڈرر میں رکھنا ہوتا ہے۔ اگر ہرکوئی منصف بن جائے گا تو ایسا انصاف پھر ہر ایک کو برداشت کرنا پڑے گا۔ جس سے بد امنی ہی نہیں بلکہ فساد بھی طول پکڑ یگا اور عقل انسان بھی شرما جائے گی۔ بلا شبہ کیس کا منطقی انجام ہو چکا ہے۔ اس کے بعد ہمیں یہ یاد رکھنا ہے کہ اسلامی قوانین کی موجودگی میں کوئی خود منصف بنے اور دوسرے کی گردن اُڑا دے گوارہ نہیں۔ ہمارا سسٹم اگرچہ ناکارہ اور سست ضرور ہے لیکن کسی کو اس سے بغاوت کا حق بھی حاصل نہیں اور یہ بھی غور طلب امر ہے کہ جب ایک محافظ اُٹھ کر قتل کر دے تو نظام زندگی کیسے چلے گا؟ حفاظت کیسے ہو گی اور محافظ کون ہوگا؟
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے شاید تاریخ میں پہلی مرتبہ نیشنل سیکورٹی کو خاطر میں رکھا اور ایسے واقعے کی کوریج سے احتراز برتا جس پر گھیراؤ جلاؤ ہو سکتا تھا۔ بہت سے لوگوں کی املاک تباہ ہوتیں، قیمتی جانیں جاتیں اور شہروں کا امن قائم نہ رہتا۔ اگر میڈیا اس واقعے کی بھرپور خبر دیتا تو قوم کئی گھنٹے اسی صورتحال کے ہاتھوں یرغمال بنی رہتی ۔ قوم کے کان نام نہاد دانشوروں کے فتووں سے بھرے جاتے۔ اشتعال اور انتشار کی آگ تیز ہو جاتی۔ یقیناً باشعور طبقہ اس کاوش کو سراہتا ہے۔ اور امید یھی رکھتا ہے کہ آئندہ بھی اس رسم کو نبھاتے رہیں گے۔ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کو بھی پیشہ ورانہ مہارت استعمال کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی ضرورت ہے جبکہ لوگوں کو کسی انتہائی اقدام پر اکسانے کی ضرورت نہیں۔ خوشی ہو گی اگر میڈیا صحافتی کے اصولوں پر کاربند رہے ۔
پی ایس ایل کا انعقاد اور یونائیٹڈز کی فتح
جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے اور جہاں جہاں بھی آدم زاد آباد ہیں، دنیا کے ہر حصے میں بسنے والے انسانوں، ہر قوم کے افراد اور تقریباً ہر آدمی کو کبھی نہ کبھی خواب ضرور ہی آتے ہیں، بعض لوگوں کو کثرت سے اور بعض کو کبھی کبھار۔ چنانچہ پاکستان میں لوگ خواب تو بہت دیکھتے ہیں مگر دن کی روشنی پڑتے ہی سورج کی کرنوں کے ساتھ بکھر جاتے ہیں۔ یہ جا اور وہ جا۔ لیکن اگر کوئی خواب دیکھنے اور تعبیر دینے پر اٹل ہو جائے تو اسے حقیقی معنوں میں خواب شرمندہ تعبیر کرنا کہیں گے۔ کچھ ایسا ہی ہوا جب پی سی بی انتظامیہ روز مرہ کی طرح خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھی تو اچانک ایک ایساخواب (جسے سہانہ خواب کہہ سکتے ہیں) دیکھا۔ جس کی تعبیر انتہائی کھٹن تھی کہ ایک عام آدمی اندازہ نہیں کر سکتا۔ پی سی بی کا پاکستان سپر لیگ کا انعقاد کروانا ایسے ہی ایک خواب کی تعبیر ہے جسے پی سی بی کی پوری ٹیم نے جان فشانی سے اور ہمت سے پوارا کر دکھایا۔ اس ضمن میں اگر ایک خواب ایسابھی دیکھا جاتاکہ پی ایس ایل کا انعقاد پاکستان کی سرزمین پر ہوتا تو شاید یہ بھی نا ممکن نہ تھا۔ بہر کیف دبئی و شارجہ میں پی ایس ایل کو منعقد کرنا اور کامیاب تجربہ کرنا بھی لائق تحسین ہے۔ بلکہ آئندہ برس پی سی بی کو یہ خواب زبردستی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ پی ایس ایل کو ملک میں لایا جائے، جس سے نہ صرف کرکٹ بورڈ امیر ہوگا، ٹیلنٹ سامنے آئے گا، کوچ و پلیئرز کو پریکٹس کے مواقع ملیں گے اور یقیناً شائیقین بھی پی ایس ایل کو ملکی فرنچائز کرکٹ سمجھیں گے اور انٹرٹینمنٹ تلاش کریں گے۔ اس ضرورت کے پیش نظر اگر ملک میں سیکورٹی وجوہات کی بنا پر فرنچائز کرکٹ دوسرے ملک کروائی جا رہی ہے تو ہم یہاں بھی کھیل اور کھلاڑی کی سیکورٹی صورتحالات کا جائزہ لیں۔ یہ بھی ممکن ہے کھلاڑیوں کے ہوٹلز کو سٹیڈیم کے عین قریب رکھا جائے اور اگر ایسا بندوبست ممکن نہیں تو عارضی و مستقل رہائش سٹیڈیم کے اندر ہی مہیا کی جائے تاکہ سیکورٹی کا کنٹرول آسان رہے۔ سیکورٹی کلئیرنس کیلئے فوج سے مشاورت بھی اور مدد بھی مؤثر ثابت ہوگی۔ لاہور، کراچی اور پشاور وہ بہترین انتخاب ہو سکتے ہیں جس سے پی سی بھی کو مالی فائدہ اور کرکٹ کو فروغ مل سکتا ہے۔ پی ایس ایل 2016ء کی چیمئین ا سلام آباد یونائیٹڈز کا تفاخر ہے کہ وہ پی ایس ایل کے پہلے ایونٹ میں کامیاب ہوئی۔ اس کے اونر، کپتان مصاح الحق اور پوری ٹیم کو جتنی بھی مبارک باد دی جائے کم ہے۔ یہ مبارک باد دوگنا ہو جاتی ہے کیونکہ راقم کی ٹیم اسلام آباد یونائیٹڈز تھی۔ جس سے تعلق دو وجوہ کی بنیاد پر تھا ، اوّل دارالحکموت میں رہنا اور دوم مصباح الحق کا پسندیدہ کھلاڑی اورکپتان ہونا۔ بار دیگر ان سب کو مبارک باد اور آئندہ کیلئے دعائیں اور نیک تمنائیں۔
No comments