سیاسی خلفشار، خدشات اور توقعات
حکمران طبقہ ہمیشہ سے ہی اپنے مفادات کو تحفظ دینے کیلئے ریاستی مشینری کو کمزور کرنے پر اٹل ہے۔ مفاداتی ٹکراؤ کی بنا پر قوانین کے نفاذ میں زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا۔ جب انصاف کرنے، سزا دینے اور قوانین کے نفاذ کی باری آتی ہے تو ادارہ جاتی سطح پر عدم توجیح دیکھنے کو ملتی ہے۔ ملک میں جمہوری ادارے فعال ہیں، بلاشبہ ملک میں ترقیاتی منصوبے بھی شروع ہو رہے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت بھی ماننا پڑے گی کہ ملک میں دہشت گردی ، بد امنی، دنگا فساد، کرپشن اور ناانصافی کے ازالے کیلئے اقدامات سست روی کا شکار ہیں۔ اگرچہ ان تمام معاملات کے حل میں "سیاست" کا کردار ہی ہے۔ لیکن موجودہ صورتحال کے پیش نظر "سیاست" ڈرامہ بازی کی نذر ہو رہی ہے۔ جس میں سیاستدانوں کے مابین اختلافات سے زیادہ بد اعتمادی کا رجحان پایا جاتا ہے۔ پھر اس قسم کے سیاسی خلفشار میں "مسائل کا حل" ہرگز ہرگز ممکن نہیں رہتا۔
تازہ ترین اور اہم ترین قصہ ، قصہ کراچی یعنی "کراچی کا امن" ، "رینجرز کے اختیارات " اور"ڈاکٹر عاصم" موضوع بحث ہیں۔ کس کی دم پر پاؤں آیا ہے کہ سیاسی منظر نامہ یک لخت تبدیل ہو گیا ہے؟ کراچی آپریشن کو تو پورا سال گزر گیا مگر کسی نے اس کی اہمیت کو چیلنج نہیں کیا۔ ڈاکٹر عاصم حسین کے اعترافی بیان نے سندھ کی سیاست میں ہلچل مچا دی۔ کیونکہ جب رینجرز کی تحویل کے بعد پولیس کی "حفاظت" میں انہیں"دبئی" سے سہارا ملنا شروع ہوا تو اس "سہارے" کو وفاقی وزیر داخلہ نے چیلنج کیا۔ پھر اپوزیشن لیڈر کو بھی یہ کہنا پڑا کہ "ہم نے چوڑیاں نہیں پہن رکھیں"۔ اور قمر زمان کائرہ نے بھی انتقامی کاروائی قرار دیا۔ لیکن یہاں سندھ سے ہی اس موقوف کی مخالفت بھی کی گئی اور سابق صدر آصف زرداری کے دوست ذولفقار مرزا نے رینجرز کے اختیارات کی مدت میں توسیع کیلئے تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ پیر پگاڑا، ایم کیو ایم کے خواجہ اظہار الحسن اور کراچی کے کاروباری طبقہ نے توسیع کیلئے مطالبات کئے۔ لیکن گتھی پھر الجھی کی الجھی ہی ہے کہ ڈاکٹر عاصم کے اعتراف پر اگرکسی کو کوئی خوف نہیں تو پھر ان کے تفتیشی افسر کو کیوں تبدیل کیا گیا؟ جبکہ سابق تفتیشی افسر نے کہا "تحقیقاتی رپورٹ میں تمام تفصیلات لکھی تھیں کہ ان کے ہسپتال میں کن کن دہشتگردوں کا علاج معالجہ ہوتا رہا ہے۔ ان آٹھ لوگوں میں ایسے بھی لوگ تھے جن کی ہیڈ منی تھی، جن میں عمر کھچی کے سر کی قیمت دس لاکھ تھی، ظفر بلوچ تھا زاہد لاڈلہ تھا جو بابا لاڈلہ کا بھائی ہے۔"
جے آئی ٹی رپورٹ میں ڈاکٹر عاصم حسین کا تمام الزامات کا اعتراف کرنا اور جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے تمام ساتوں اراکین کا انہیں "بلیک" کیٹگری میں شامل کرنا، کس ہستی کو ناگوار گزرا اور تفتیشی افسر ہی تبدیل کردیا گیا؟ یہاں یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ قائم علی شاہ محض وزیراعلیٰ ہی ہیں ورنہ سندھ میں آئین پاکستان کے بجائے"دبئی کا آئین" ہی راج کرتا ہے۔ بلکہ اس بات کا شاہ صاحب نے خود بھی اعتراف کیا کہ "وہ بے اختیار ہیں"۔ یہاں یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ رینجرز کے اختیاراتی توسیع کے معاملے پر نون لیگ اور پی پی پی کے مابین لڑائی ہے۔ مگر میں اس سے متفق اس لئے نہیں کہ یہ لڑائی دراصل آپریشن حامیوں(وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار) اور ڈاکٹر عاصم حسین کے سرپرستوں کے درمیان ہے۔ اصل مسئلہ یہ نہیں کہ کون اختیارات سے تجاوز کر رہا ہے، مگر یہاں اصل مسئلہ کرپشن اور بدعنوانی کا راستہ روکنا ہے۔ کیونکہ یہ سیاسی دنگا فساد براہ راست دہشت گردی کی جنگ کو متاثر کر کے دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ کرپٹ اور بد عنوان عناصر سیاسی سرپرستی اور جمہوریت کو ڈھال بنا کر کراچی آپریشن کیخلاف دیوار بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں کراچی آپریشن کیسے کامیاب ہو گا؟؟؟ یہاں رینجرز دو ہی راستے رکھتی ہے ایک کہ وہ وفاق اور سندھ حکومت کے اوپر چھوڑ دیں اور بد اعتمادی کو اعتماد سے بحال کریں۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو دوسری صورتحال یقیناًسیاسی قوتوں کے حق میں نہیں ہو گی۔۔۔!
اب لگتا یہی ہے اورعوام کو تاثر دیا جارہا ہے کہ دہشت گردی کو ئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ اس وجہ سے دہشت گردی پر توجہ کم ہو رہی ہے۔ سانحہ اے پی ایس کے بعد دہشت گردوں کے خلاف جو فضا پیدا ہوئی تھی، اس میں بھی کمی آرہی ہے۔ جو ملک و قوم کیلئے انتہائی خطر ناک ہو سکتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اس حوالے سے غور کرنا چاہئے۔ سارے کام سیکورٹی اداروں کے سپرد کرنا پیچیدگیوں کا حل نہیں ہوں گے۔ کیونکہ اصل بات یہی کہ دہشت گردی کے حوالے سے وطن عزیز کے تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک صفحہ پر آنا ہوگا، دہشت گردی ایک ایسا مسئلہ ہے ، جس کو فوج یا محض حکومتی مشینری جڑ سے ختم نہیں کر سکتے۔ اس حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں، تمام مذہبی تنظیموں ، علماء و مشائخِ عظام، کاروباری طبقوں اور اہل علم کو بھی ایک صفحہ پر ہونا پڑے گا۔ دہشت گردی اور کرپشن کے خلاف آپریشن کے سٹیک ہولڈرز کیلئے اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ کراچی یا اندرون سندھ ہی نہیں بلکہ آپریشن کا دائرہ جنوبی پنجاب اور پورے پنجاب تک وسیع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ کیونکہ اب پیچھے ہٹنے کا وقت نہیں اور آپریشن کو منطقی انجام تک جاری رہنا چاہئے۔ اور آرمی پبلک سکول کی پہلی برسی کے بعد قوم کا یہ پیغام ہے کہ "مستقبل میں ایسے سانحہ سے محفوظ رہنا ہے"۔
No comments