جمہوریت کا اعجاز و افتخار
جمہوریت جمہور کے راج کو کہا جاتا ہے۔ اس وقت جمہوریت دنیا میں باعثِ رحمت اور وجہ امن سمجھی جاتی ہے۔ یہ وجہ اپنی جگہ ازبر ہو گی کہ عوام الناس جمہوریت میں اپنی قیادت خود منتخب کرتے ہیں۔ لیکن اس سے زیادہ منطقی پہلو یہ ہے کہ جمہوریت وسیع تر سوچ اور طرز عمل کا نام ہے، جو سر تا پا انسان نوازی سے مقَفّل ہے۔ جمہوریت کے فیض میں عوامی بالادستی، حریت فکر، آزادی اظہار رائے، حقوق انسان، اقلیتوں کا تحفظ، قانون کی حکمرانی، ابلاغ عامہ کی آزادی، منتخب عوامی اداروں بالخصوص پارلیمنٹ کی سپریم یا بالادست حیثیت اور خواتین کے حقوق کا تحفظ وغیرہ شامل ہیں۔ جمہوریت میں مزید نکھار آجاتا ہے اگر اس کے چند بنیادی تقاضوں کا خیال رکھا جائے، عوام کی تعلیمی کمزوری وپستی اور معاشی پسماندگی کو دور کیا جانا لازم ہے کہ وہ باشعور ہوں، نتیجتاً وہ "لیڈر" کے شعوری فیصلوں کو خاطر میں ضرور رکھیں۔ اگر آج ہم ان تما چیزوں کی کمی محسوس کرتے ہیں یا عوام کی پہنچ قومی سطح کے فیصلوں تک نہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان سے جمہوری حق چھین لیا جائے، اظہار رائے سلب کر لیا جائے اور دیدہ دانستہ انہیں کسی ڈکٹیٹر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔ ہمارے چند نام نہاد دانشور تعلیمی و معاشی پستی کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں اور یہ تاثر معاشرے میں پھیلانا چاہتے ہیں کہ دراصل عوام جمہور اور "گیدڑ" میں فرق جان سکیں۔ معاشی حالت اس حد تک ابتر نہ ہو کہ اپنا ووٹ ذاتی مفاد کی خاطر بیچ دیں۔ سو وہ قومی سطح کی قیادت کے چناؤ میں قومی مفاداتیت کے لائق نہیں۔ ایسے لوگ انسانی مساوات اور شرف انسانی سے بیزار اس ارتکاب فعل کی حمایت کرتے ہیں جو ظلم و جبر سے مکلف ہو۔
کراچی کے سابق مئیر مصطفٰے کمال کے بیانات اور متحدہ قومی موومنٹ کے قائد پر لگائے گئے سنگین نوعیت کے الزامات و تلہکہ خیز انکشافات نے ملکی سیاست میں بھونچال پیدا کر دیا ہے۔ کراچی میں رہتے ہوئے مذکورہ جماعت کے خلاف زباں درازی کرنا دلیری کی بات ہے، ایسی جماعت جس سے متعلق ماضی میں صحافی حضرات بھی گول مول انداز میں تنقیدی نشتر برساتے تھے۔ خیر یہ کریڈٹ جمہوریت نام کی چیز کو بھی جاتا ہے ورنہ اتنا سب کچھ کوئی فرد یا جماعت بھی برداشت نہیں کرتی۔ مصطفٰے کمال جب جمہوری عمل کا حصہ بن رہے ہیں اور اپنے ماضی پر کفِ افسوس مل رہے ہیں تو انہیں روایتی سیاست سے آگے آ کر اپنی اننگز کھیلنا ہو گی ورنہ ملک میں سیاست دان کم ہیں نہ قیادتوں کی کمی۔ ہمیں الیکشن سے پہلے کا ماحول اور دن بہت اچھا لگتا ہے، جب ہمارے دودھ کے دھلے سیاستدان دودھیا رنگت ملبوس کپڑوں میں دودھ کی نہریں بہانے کا دعوہ کرتے ہیں۔ لہٰذا ہمارے پُر امید اور غریب عوام اسی خیال میں رہتے ہیں کہ مبادہ کوئی منتخب ہو کر ایسا کر ہی نہ ڈالے۔۔۔ اور مصطفٰے کمال اگرچہ تجربہ رکھتے ہیں لیکن اس وقت بھی لوگ دودھ سے جلے چھاچھ بھی پھونک کر پینا چاہتے ہیں، سو ان تمام حقیقتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جمہوریت میں نئی انٹری نیک شگون تب ہی ہو سکے گی جب پرانی روایات کو ترک کر کے، نئے عزم کا عملی اظہار کیا جائے گا۔
ایک اندازہ یہ بھی ہے کہ جیسے جیسے معاشرہ ارتقائی مراحل سے گزر کر منازل طے کرے گا جمہوریت میں خود بہ خود نکھار آتا چلا جائے گا۔ بالکل جیسے مچھلی پانی بغیر زندہ نہیں رہ سکتی ایسے ہی جمہوری تطہیر بھی بغیر جمہوری نظام قائم کئے نیہں لائی جا سکتی۔ چند ایک ٹھوکریں عوام کو ابھی کھانا ہوں گی تو پھر معیاری و بہتر فیصلے کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔ جمہوریت کو جتنا بھی کوس لیا جائے اور چغلیاں کی جائیں، ان سب کو اگر بھلائیوں اور خوبیوں سے بدلنا ہے تو پھر بھی واحد حل "جمہوریت" ہی ہے۔ اس بات سے بھی حیلہ حوالہ درست نہیں کہ انسانی شعور نے صدیوں کی ارتقاء سے اب تک جو بہتر نظام دریافت کیا ہے، وہ آخر کار جمہوریت ہی ہے۔ مشہور مقولہ کہ "بد ترین جمہوریت بہترین آمریت سے بدرجہا بہتر ہے"۔ جمہوریت کی اس سے بڑھ کر کیا عنایت ہو گی کہ پُرامن اقتدار کی منتقلی کا اسلوب انسان نے جمہوری نظام سے ہی سیکھا ہے۔ جمہوریت ایک مشن ہے اور اس کے خلاف پراپیگنڈا کرنے والے بھولیں مت کہ صدیوں سے آپ کے پاس کوئی طریقہ نہیں تھا کہ جس سے پُر امن طور پر اقتدار کا انتقال کیا جا سکتا۔ اقتدار کی کشمکش میں ہم لوگ پاگل سا روپ دھار لیتے تھے۔ دیوانگی کی حد یہ ہے کہ سگے بھائیوں کا قتل اور محبت و اقتدار میں جنگ جائز سمجھتے تھے۔ تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں، ہم نے اپنی ایمپائرز میں جو طرز حکمرانی قائم کئے رکھا وہ بھی محض افراد کی شخصی آمرتیوں والا تھا، منظم عوامی اداروں کی تصویر تھی نہ تصور۔
قارئین کرام، آمریت کی خرابی صرف یہ نہیں کہ حکمرانی زور، جبر سے آتی ہے اور عوامی منشاء کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا بلکہ اس سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اگر کسی ظالم و جابر حکمران کے ستائے عوام کسی ایسے آمر کا خیر مقدم کرتے ہیں جو رائج نظامِ جمہوریت سے نہیں آیا لیکن وسیع تر عوامی حمایت سے وہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ عوامی حمایت یافتہ ہوں۔ شخصی اقتدار چاہے جبری ہو، وراثتی یا کہ عسکری جمہوریت کے بالمقابل اس کی خرابی یہ ہے کہ اس کے خمیر میں "جبر" سمایا ہوتا ہے، بظاہر تو وہ مسکراتے لب و لہجہ میں عوامی رائے کی عظمت میں رطب السان بھی ہوتے ہیں، مگر اس کے پلے میں جبر کے سوا کچھ نہیں ہوتا، عوامی خدمت کے نعروں میں بھی ذاتی، خاندانی یا گروہی مفادات کا حصول پنہاں ہوتا ہے۔ آپ یہ درست جانے کہ اس قسم کی آلائشیں کمزور جمہوریتوں میں بھی ہوتی ہے تاہم مجموعی حیثیت میں اعلیٰ ترین آمریت میں بھی ایک خاص قسم کی گھٹن فطرتاً موجود ہوتی ہے۔ عوام رعایا بن جاتی ہے، لوگ خوش آمدانہ روپ دھار لیتے ہیں، اپنے ضمیر کے خلاف حاکم کی ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں۔ ایک گھٹا اور ڈھکا ہوا سماج سویت یونین کا سماج تھا جس کے خلاف خود گوبا جوف جیسے عظیم الحکمت انسان نے گلاسنوٹس یا اوپن نیس کا نعرہ لگایا تھا۔ سویت یونین تو ٹوٹ گیا جسے بہر کیف ٹوٹنا تھا۔ لیکن اس عظیم المرتبہ لیڈر کا یہ نعرہ کروڑوں انسانوں کے ضمیر اور شعور کی آزادیوں سے بہرہ ور کر گیا کہ جس سے آج ان کی نسلیں استفادہ کر رہی ہیں۔ ہم پچھلی چند ایک صدیوں پر محیط اہل مغرب کی اس جمہوری جدوجہد کو سراہتے ہیں اور تھینک فُل ہیں کہ ہماری آج کی دنیا جمہوریت کے کرشمات سے فیض یاب ہو رہی ہے۔ سقراط، افلاطون اور ارسطو بھی داد تحسینی کے لائق ہیں۔ یہ جمہوریت کا ہی اعجاز و افتخار ہے کہ آج آپ آمریت کے خلاف حوصلہ شکن کالم پڑھ رہے ہیں اور میں آزادی اظہار رائے کے سبب آپ سے مخاطب ہوں۔ اسی قسم کے جمہوری لب و لہجہ کی توقع ہم مصطفٰے کمال سے کر سکتے ہیں کہ وہ اپنا حصہ ڈالیں مگر منفی روایات اور رجحانات کے برعکس مثالی کردار پر محنت کریں، یقنیاً تائید اور ساتھ عوام دیں گے۔
No comments