• Breaking News

    یہ سال بھی اداس رہا، روٹھ کر گیا

    تمام قارئین کو سالِ نو مبارک! ؂

    کون جانے تُو نئے سال کس کو پڑھے 
    تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح
    اس لمحے جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو عیسوی سال 2015 ء کا آخری دن گزر رہا ہے۔ بے پناہ تلخ یادیں چھوڑ کر۔ پاکستان کے باشندوں کے لئے یہ سال جہاں چند اچھی خبریں دیتا رہا وہیں آہوں، سسکیوں،حسرتوں اور نا امیدیوں کا بھی پیش خیمہ رہا۔ گزشتہ سال کی تمام اچھی خبروں کے بعد مردان میں نادرا دفتر پر خود کش حملے نے فضا سوگوار کردی اور یوں سال 2015ء کے اختتام پر 26 جانوں کا سفر زندگی اختتام کو پہنچا اور 26 ہی خاندان زندگی بھر کے روگ میں مبتلا ہو گئے۔سال 2015ء جہاں ملک میں سیاسی، انتظامی، معاشی اور عوامی مسائل کے حل نہ ہونے کے حوالے سے مایوس کن رہا وہیں یہ سال دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے بھی ناقابلِ فراموش واقعات عوام کے ذہنوں چھوڑ گیا۔ 
    قارئین ہماری کوتاہیوں، نالائقیوں اورگناہوں کی کڑی سزا ؤں میں گزرتی ہوئی زندگی۔ دہشتگردی کا عذاب اور دشمن کی خوشیاں عروج پر ہیں۔ ہمسایہ ملک بھارت میں جبراً ہندو مذہب اختیار کرانے کی جراتیں بڑھتی جا رہی ہیں اور بھارت کے متعصب ہندوؤں میں ایسی جرات پہلی بار سامنے آئی ہے۔ گزشتہ دنوں ہم نے قائد اعظم کی یاد منائی، میں نے اپنی سالگرہ منائی اور وزیر اعظم نواز شریف نے مودی صاحب کے ساتھ اپنی سالگرہ کا کیک کاٹا۔ مگر میں 25 دسمبر کے روز اپنی پیدائش کو اپنی خوش نصیبی سمجھتا ہوں وہ یقیناًوزیر اعظم پاکستان کے حوالے سے نہیں بلکہ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے حوالے سے ۔جناح ؒ کا ذکر ہوا ہے تو ان کا دورہ مصر مجھے یاد آرہا ہے۔ جب قائد لندن سے اپنے خوابوں کے دیس پاکستان آتے ہوئے جان بوجھ کر قاہرہ میں رکے جہاں وہ عربوں کو نظریہ پاکستان اور اس خطے میں ایک مسلمان ملک کے قیام کی نا گزیر ضرورت پر اعتماد میں لینا چاہتے تھے۔ اس وقت قائد نے عربوں پر واضح کیا کہ اگر ہندوستان میں مسلمانوں کا ایک آزاد ملک قائم نہ ہوا اور وہاں کے مسلمان ہندو اکثریت کے رحم و کرم کے محتاج ہو گئے تو وہ مسلمانوں کو صفہ ہستی سے مٹانے میں مصروف ہو جائیں گے۔ مسلمانوں کو بچانے کیلئے ایشیاء کے اس خطے میں ایک آزاد مسلمان ملک کی ضرورت ہی نہیں یہ مسلمانوں کی بقاء کا مسئلہ ہے۔ آج ہم قائد اعظم کی بصیرت کو زندہ دیکھ رہے ہیں۔ گزشتہ سال ہمارے لئے جن پہلوؤں سے اہم تھا، اُس میں بھارت میں آباد مسلمانوں کی بقاء کے خطرے کا مسئلہ شاید سب سے اہم ہو کر سامنے آیا۔ پاکستان کا قیام اور اس کی بقاء اس ملک کے دشمنوں کے لئے ناقابلِ برداشت ہے۔ بلکہ قائد کی بصیرت کا روشن پہلو بھارت سے آنے والے حالیہ وہ بیانات ہیں جو بھارت کے مختلف مسلم اور غیر مسلم فنکاروں نے دیئے کہ بھارت میں ہمارے لئے خطرہ ہوا تو ہم پاکستان آجائیں گے۔ اس کے بعد قائد کی بے باک شخصیت کو سلام نہیں پیش کیا جائے گا تو اور کیا؟ 
    پاکستان کے ایک ہنر مند شہری نے ایٹم بم بنا کر بھارت کے ہاتھ قلم کر دیئے لیکن بھارتی ہندؤں کی نیت جوں کی توں ہی رہی اور یہ جو دہشت گردی کا عفریت آج پاکستان کے لئے حقیقی خطرہ بنا ہوا ہے یہ سب بھارت کا پیدا کردہ ہے۔ پاکستان بھارت پسند اور بھارت پرست اس الزام سے بہت برہم ہوتے ہیں۔ مگر اپنے دوست ملک بھارت سے کیوں مطالبہ نہیں کرتے کہ وہ بد معاشی کو ترک کر کے خود بھی زندہ رہے اور ہمیں بھی زندہ رہنے دے۔ میرا دل یہ کہتا ہے کہ اگر پاکستان میں مستقبل قریب میں کوئی سخت حکومت آگئی جسے ملک کو لاحق شدید خطرات کا احساس ہوا تو پھر بھارت یہ خوش فہمی دل سے نکال دے کہ آبادی اور کثرتِ رقبہ اسے وسعتِ مسلمان جواں مردی کے سامنے ٹکنے دے گی۔ کیونکہ مسلمانوں کی تاریخ میں دشمنوں کی کثرت لیکن اس کی تباہی ایک تاریخی حقیقت رہی ہے۔ یہاں ایک مثال کافی ہوگی کہ صلیبی جنگوں کے دوران ایک دن ایسا بھی آیا کہ مسیحی یورپ کے علماء اور حکمران مذہبی جوش و خروش سے بے تاب ہو کر سلطان صلاح الدین کے لشکر کے سامنے جمع ہو گئے۔ ان کی تعداد بہت زیادہ تھی اور مسلمان لشکر ان سے کم تھا۔ سلطان کے ساتھی جرنیلوں نے مشورہ دیا کہ بظاہر ہمارا ان سے مقابلہ نہیں بنتا تعداد میں وہ بہت زیادہ ہیں اسلئے مناسب ہوگا کہ ہم کسی حیلے بہانے کنی کترا جائیں۔ یہ سن کر سلطان نے اپنے خیمے کا پردہ اٹھا کر دشمن کا مظاہرہ کیا اور اپنے ساتھیوں سے کہا دیکھو دشمن پوری طاقت لے کر آیا ہے، یاد رکھنا دشمن اتنی طاقت کے ساتھ دوبارہ ہمارے سامنے نہیں آئے گا۔ ہمارے دشمن کے پاس جو کچھ ہے وہ ہمارے نشانے پر لے کر آگیا ہے۔ ہمیں یہ موقع پھر نہیں ملے گا کیوں نہ ہم اسے ختم کر دیں اور ہمت کرکے اسے ہمیشہ کیلئے ٹھکانے لگا دیں کہ پھر ایسا شاندار موقع نہیں ملے گا۔ چنانچہ کم مسلمان قوت نے مسیحی دنیا کے اس عظیم لشکر کو تباہ کر دیا۔ حیران مؤرخ لکھتے ہیں کہ برسوں تک اس میدان میں انسانی ہڈیاں ملتی رہیں۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کے ایمانی جذبے اور خدا پر بھروسے کا کوئی جواب نہیں ہے۔ بھارت ہم پر ہر گز غالب نہیں آسکتا بشرطیکہ خود ہی اس سے ہار نہ جائیں۔ یہ دہشتگردی بھی ہماری کمزوریوں کی وجہ سے ہی ہے جسکی بڑی وجہ بھارت کی خوشامد ہے۔
    سال 2014ء میں ہم نے دہشت گردی میں ڈیڑھ سو ننھی جانیں قربان کیں۔ اور اس سال بھی اسی طرح کچھ غیر معمولی ہوتا رہا اور ہماری حکومت دہشتگردی کا شور مچاتی رہی مگر دشمنوں سے ایک بار بھی زبان کلامی احتجاج بھی نہیں کیا گیا۔ بھارت میں اس وقت ایک متعصب اور مسلمان دشمن سیاستدان کی حکومت ہے۔ جس کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ پہلے وہ صرف ایک صوبے مگر اب پورے ملک کا حاکم ہے اور کوئی خطرناک مسلمان دشمن منصوبہ اپنے اقتدار میں مکمل کرنا چاہتا ہے۔ 
    بہر صورت ایک سال گزر گیا، زندہ رہے تو دوسرا بھی گزر جائیگا، جیسا بھی گزرے اس کا احسان ہمارے حکمرانوں کو ہے جو گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصہ ہم پر اپنی حکمرانی مسلط کئے ہوئے ہیں۔ محلوں میں رہنے والے جھونپڑیوں میں رہنے والوں کو تسلیاں دیتے رہتے ہیں۔ ہم اپنی مسلمان تاریخ کی روشنیوں کو کیسے بھلا سکتے ہیں، حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو جب خلافت دی گئی تو انہوں نے اپنے کپڑے کا کاروبار چھوڑ دیا، اس پر سوال ہوا کہ ان کہ اخراجات کیسے پورے ہوں گے تو خلیفہ نے تاریخی بات کہی اور کہا کہ مدینہ شہر کے مزدور کی جتنی تنخواہ اور مزدوری بنتی ہے اتنی تنخواہ میری مقرر کر دی جائے۔ کہا کہ یہ تو کم ہوتی ہے تو آپ کا گزارہ نہیں ہو گا۔ اس پر حکمران نے ایک تاریخی فقرہ کہا کہ اچھا تو پھر مزدور کی تنخواہ بڑھا دیتے ہیں تو میری تنخواہ بھی بڑھ جائیگی۔ قارئین یہ وہ حکمران تھے جن کی حکومت گزشتہ صدی تک دنیا کی سپر پاور رہی۔ ہمیں ایسے نہ سہی مگر ان کے پیرو کار حکمرانوں کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے دشمن بہت ہیں۔ 
    دیکھیے 2016ء اپنے اندر کن سانحات کو چھپائے بیٹھا ہے کہ ہر ایک کو اپنی بادشاہت اور مقبروں کی فکر کھائے جا رہی ہے اور وطن کے محافظ بھی ان ہی کے محافظ اور پیریداربن گئے ہیں۔ ایک پاکستانی کی یہی خواہش ہے کہ پاکستان میں ہر جرم اور مجرم کو تحفظ حاصل نہ ہو بلکہ اس کے باسی امن اور سکون سے زندگی گزار سکیں۔ خدا کرے نیا سال قابلِ برداشت حالات لے کر آئے۔ نئے سال کی آمد کے بعد عوام کی خواہش ہے کہ یہ سال ان کیلئے نیک شگوں ثابت ہو۔

    No comments