• Breaking News

    راہداری منصوبہ، لب کشائی میں احتیاط


    پاک چین اقتصادی راہداری پر چھوٹے صوبوں کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایک عرصے سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے، حکومتی نمائندوں کی ایک سے زائد یقین دہانیوں اور وضاحتوں کے باوجود اعتراضات بدستور جاری رہے۔ بعض مبصرین نے تو یہ بھی کہا کہ "گیم چینجر" کہلوانے والے منصوبے کا حشر بھی کالا باغ ڈیم جیسا نہ ہو۔ ہم اس حقیقت کو بھی نہیں جھٹلا سکتے کہ اس منصوبے کو بھی تمام ماہرین کی جانب سے پاکستان کی آبی اور توانائی کی ضروریات کی تکمیل کیلئے ناگزیر قرار دیا گیا تھا۔ پھر اقتصادی راہداری منصوبے کے نتائج سے بھی کوئی منحرف نہیں کہ یہ ایک واقعی "گیم چینجر" اقدام ہے۔ مگر روز مرہ کے سیاسی بیان، چھوٹے صوبوں کے تحفظات، حکومتی حکمت عملی یہ سب عام آدمی کیلئے محض کنفیوژن پیدا کر رہا ہے۔ کیونکہ ان کے ذہنوں میں ماضی کی تلخ حقیقتیں دستک دیتی ہیں جنکا پیغام منفی سوچ پیدا کرنا اور ابہام سے دوچار کرنا ہے۔ 
    وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے کل جماعتی کانفرنس کے ذریعے اختلافات ختم کرا کے منصوبے کو قومی اتفاق رائے کے تحت آگے بڑھانے کا جو اقدام کیا یقیناًقابل ستائش ہے، بالکل اسی طرح جیسے اس منصوبے کے حوالے سے گزشتہ دسال مئی میں میں منعقدہ اے پی سی میں نواز شریف نے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا تھا،سو انہیں اس میں کامیابی بھی ملی۔ اس ضمن پاک چین اقتصادی راہداری کی تیز تر تکمیل کیلئے وزیر اعظم پاکستان نے اپنی سربراہی میں پانچوں وزراء اعلیٰ سمیت دس رکنی اعلیٰ اختیاراتی ٹیم تشکیل دینے کا اعلان بھی کیا اور اختلافات ختم کرتے ہوئے منصوبے کو قومی اتفاق رائے کے تحت آگے بڑھانے کا فیصلہ بھی کیا۔ اس اتفاق رائے کی اصل کامیابی وزیر اعظم ہاؤس میں منعقدہ اجلاس میں ملی۔ وزیر اعلیٰ کے۔ پی پرویز خٹک اور عوامی نیشنل پارٹی کے نمائندوں سمیت دیگر سیاسی پارٹیوں نے وزیر اعظم سے شکوہ بھی کیا کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق مغربی روٹ کو ترجیحی بنیادوں پر پہلے شروع کروائیں۔ جس پر نواز شریف کی مثبت سوچ نے ان سب کی حمایت حاصل کی کہ یہ منصوبہ باہمی مشاورت سے ہی تکمیل پائے گا۔ منصوبے کی تکمیل ترجیحی بنیادوں پر عمل میں لائی جائے گی۔ 
    اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ نیا ادارہ جاتی فریم ورک مستقبل میں علاقائی خدشات بہتر انداز میں دور کرنے میں معاون رہے گا۔ ہماری سیاسی پارٹیوں کو اس بات پر اتفاق کرنا چاہئیے کہ نہ صرف اقتصادی راہداری پر حمایت کا اعادہ کریں بالکہ اس منصوبے کو ملک کیلئے ایک طاقتور اقتصادی مرکز میں تبدیل کرنے کیلئے عملی کوششیں بھی کی جائیں۔ کیونکہ قومی رہنماؤں اور عوامی نمائندوں کی حمایت سے ہی اکنامک کوریڈور کو نئی طاقت حاصل ہو گی، اس ضمن تمام سیاسی قیادت کو سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فیصلے کرنے ہوں گے (جسکی ہلکی سی جھلک ہم نے اس مذکورہ اجلاس میں دیکھی)۔ جس وقت تمام قیادت نے ایک پیج پر کھڑے ہو کر معاملات میں سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
    قارئین اقتصادی راہداری منصوبہ پاکستان کی اقتصادی و معاشی ترقی کیلئے نہایت ضروری ہے۔ ملک کی تمام تر سیاسی قیادت کو اس منصوبے پر بات کرتے ہوئے ہوش مندی اور عقلمندی کا مظاہرہ کرنے میں اچھائی ہے۔ بالکل اس اصول کے تحت کہ "پہلے تولا جائے اور پھر بولا جائے" ، بے جا تنقید اور چھوٹے چھوٹے گروہی مفادات کو قومی مفاد کے سامنے رکاوٹ ڈالنے سے بھی گریزاں رہنا چاہئیے۔ جوش خطابت کو قومی مفادات کے سامنے ذرا دھیرہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ محض مخالفت برائے مخالفت سے اس منصوبے اور اہم سنگ میل کو برباد نہ کیا جائے۔ جیسے اس سے قبل ہم نے کالا باغ ڈیم کی مثال دی۔ کیونکہ ہم نے یعنی ہمارے گروہی مفادات، تعصبات نے کالا باغ جیسے حد سے زیادہ مفید منصوبے کو متنازعہ بنایا اور ناکام کرنے میں اپنی خوامخواہ توانائیاں صرف کیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں یہ کلچر عام ہے، سیاست جماعتوں کے پاس جب کوئی ایشو نہیں ہوتا تو وہ علاقائیت، لسانیت اور نسل کی بنیاد پر سیاس شروع کر دیتے ہیں۔ مگر ہم اس بات سے بہرہ ور نہیں کہ سیاست گھر سے باہر کی جاتی ہے، نہ کہ گھر میں اور گھر کے ہی افراد سے۔۔۔ خاص نوع کے مقاصد کے حصول کیلئے اور قومی نوعیت کے حساس منصوبوں کو متنازعہ بنانے سے گریز نہیں کیا جاتا، یہ ایک تعمیری نہیں بلکہ براہ راست تخریبی روش ہے۔ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس قسم کے کلچر نے ملک میں بہت سے مسائل پیدا کئے ہیں، یہ کلچر اب دریا برد ہونا چاہئیے۔ سیاسی جماعتوں کو اب اجتماعی مفادات سامنے رکھ کر سیاست کرنا چاہئیے۔ خاص طور پر قومی اہمیت کے حامل معاملات پر لب کشائی سے قبل خوب سوچ سمجھ کر کوئی لائن اختیار کی جائے تاکہ اپنے سیاسی مفاد کیلئے ملک و قوم کو بھاری نقصان نہ اُٹھانا پڑے۔ چین پاکستان راہداری منصوبہ، یہ نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیاء کے پورے خطے میں ایک انقلاب انگیز تبدیلی پیدا کرنے کا موجب بنے گا۔

    No comments