حکمرانو سنو، سرے محل بہت شور مچا ہے
گزشتہ کئی روز سے پاناما لیکس جسے ڈرامہ لیکس اور بعد ازاں ہنگامہ لیکس کہلوانے کا شرف نصیب ہوا، نے کئی حوالے سے قانونی، سیاسی، تجارتی اور اخلاقی سوالات کے جوابات ہمارے حکمرانوں سے دریافت کرنا شرع کر دئیے ہیں۔ ایک عام تاجر اور پورے ملک کے سیاہ سفید کے مالک حکمران کے درمیان خاصا بڑا فرق ہوتا ہے۔ حکمران نہ صرف اپنے بلکہ اپنی اولاد اور عزیز و اقارب کے اثاثوں بارے قوم کو جوابدہ ہوتے ہیں۔ وطن عزیز میں اس اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد حکمران جماعت پریشان دکھائی دیتی ہے، اور جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ اسی بات کی عکاسی کرتا ہے۔ ہمارے مقتدر طبقہ اور نام نہاد لیڈران کے حوالے سے موجودہ حالات کے تناظر میں کسی شاعر نے کیا خوب کہا:
گو کماتے نہیں کئی لیڈر
آج بھی اس طریقِ کار سے مال
مال سے اقتدار ملتا ہے
اور ملتا ہے اقتدار سے مال
قارئین، پاناما میں بہت سے امیر لوگوں نے آف شور کمپنیاں بنا کر اپنی دولت کو چھپانے کی کوششیں کی ہیں، ایک عالمی تحقیقاتی تنظیم نے بہت سے امیر افراد میں سے چند امیروں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ جن میں متعدد پاکستانی بھی شامل ہیں، قانونی ماہرین کی منطق بالکل جائز ہے کہ آف شور کمپنیاں بنانا یا اپنے ملک سے دوسرے ملک جائز طریقے سے پیسہ لے جانا قانونی جرم نہیں ہے اور نہ ہی غیر قانونی فعل ہے، مگر پول تو یہاں کھلتا ہے جب ہمارے سیاستدان انکوائریوں اور استعفوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جب چوہدری اعتزاز احسن اپنے ساتھی رحمان ملک بارے تو خاموش ہیں مگر وزیر اعظم پاکستان سے استعفٰے استعفٰے کا راگ الاپ رہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا چوہدری صاحب ملکی مصلحتوں کو سیاسی مصلحتوں پر ترجیح دیتے اور اپنے رحمان ملک بارے بھی کچھ عرض کرتے۔ یقین جانئیے ہم میں خود احتسابی کا رواج تو پایا ہی نہیں جاتا، ہاں شاید کہنے کی حد تک ضرور ہے۔ عمران خان کو بھی نواز شریف پر تنقیدی نشتر برسانے کا موقعہ ہاتھ لگا تو وہ بھلا شریف خاندان کی بیرون ملک سرمایہ کی منتقلی پر خاموش کیسے رہ سکتے ہیں۔ مگر عمران خان کی ایک پیاری بات جو شاید بہت سوں کے من کو بھائی بھی ہے کہ انہوں نے احتساب کا عمل خود سے شرع کرنے کا کہا اور کہا ہے کہ میں خود اور اپنے جملہ خود سے منسلک اثاثوں کو احتساب کیلئے پیش کرتا ہوں۔۔ اپوزیشن کی تمام جماعتوں کا آپس میں ملاپ فطری ہے کہ انہیں اپوزیشن کے کردار کو نبھانے کیلئے قومی مسئلہ پر یک جان ہونا ہی ہوتا ہے۔، مگر حکومت کی جانب سے بیش ہا کجیاں اور کوتاہیاں ابھی دیکھنے کو مل رہی ہیں اور پے در پے حواس باختہ وزیراعظم اور ان کی کاببینہ معاملے سے پہلو تہی کر رہی ہے۔ جس کی سادہ مثال کہ ٹی وی پروگرام پر دعوت کے باوجود کنی کترا رہے ہیں اور تو اور گزشتہ روز اسمبلی کے اجلاس کی کاروائی بھی سرکاری ٹی وی پر براہ راست نشر نہیں کی گئی، جو شاید حکومت کے خلاف کھلے شواہد ہیں کہ وہ قوم سے ابھی تک چھپا رہے ہیں اور جھوٹ بول کر کمیشن کے چکروں میں ڈالا جا رہا ہے تا کہ خود کو معاملے سے مکھن سے بال کی طرح نکال لیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ میاں صاحب کسی کے غلط مشورے پر قوم کو خطاب داغ دیتے ہیں، جس میں قوم کو اعتماد میں لیا جاتا ہے، نہ عدالتوں اور نہ ہی اداروں کو بلکہ پاناما پیپرز سے متعلق بات کیے بغیر اپنے خاندان کی کاروبار کی تاریخ قوم کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔میری ناقص رائے یہی ہے کہ کمیشن نکالنے اور کمیشن کھانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا کیونکہ یہ بہر طور قانونی معاملہ نہیں ہے مگر کیا ہے کہ حکومت کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے ہیں اور کمیشن کے ارکان تلاشے بغیر کمیشن کا اعلان کیا جاتا ہے۔ یہ اخلاقی معاملہ ہے، جس میں اخلاق یہی کہتا ہے کہ وزیراعظم پاکستان کو پاناما کے دور دراز ملک میں اپنی کمپنیاں رجسٹرڈ نہیں کرانا چاہئیے تھیں کیونکہ یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ آف شور کمپنیاں دولت چھپانے اور ٹیکس سے بچنے کیلئے قانونی تحفظ فراہم کرتی ہیں یعنی یہ کسی نیک کار کیلئے نہیں ہوتیں۔ اخلاقیات تو یہ بھی کہتی ہیں کہ اپنے تعلیمی نظام کو اس قابل بنایا جائے کہ آپ کے بچے بیرون ملک نہ پڑھئیں بلکہ اپنے ملک میں پڑھ کر اپنے ملک کی خدمت کریں، یہی نہیں اخلاقیات تو یہ بھی تقاضہ کرتی ہیں کہ حکومت میں رہتے ہوئے اپنے صحت کے شعبے کو اس قابل بنایا جائے کہ آپ کی کمر کے درد اور پیٹ کی تکلیف کا علاج اپنے وطن میں ہی کیا جاسکے۔ یا پھر بیرون ملک علاج کا اپنا ہی چسکا ہے؟ ذرا یہ بھی غور تو کیجئیے کہ دوسروں کو نصیحیت خود میاں فصیحت۔۔۔ ہمارے حکمران دن رات بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایا کاری پر اکساتے رہتے ہیں اور پر کشش کاروباری امکانات کا چرچا کرتے رہتے ہیں۔ مگر خود سرمایہ کاری بیرون ملک جا کر کرتے ہیں اور ایسے کہ قوم سے چوری چوری۔۔۔ ہمارے لئے دوسری حقیقت بھی خونچکاں ہے کہ دنیا بھر میں امیروں کا ٹیکس غریبوں کی فلاح پر خرچ کیا جاتا ہے مگر ہمارے دستور نرالے کہ غریب سے ٹیکس لے کر امیر کی تجوری بھری جاتی ہے۔ ہمارے عوام زیادہ تر ٹیکس بلواسطہ ادا کرتے ہیں اور جو بہت زیادہ ہیں۔ جسکے نتیجے میں خوراک، لباس ، بجلی، گیس ہر شے مہنگی ہے۔ یہ ٹیکس 7 ہزار روپے آمدن والا بھی اتنا ہی دیتا ہے اور7 کروڑ کمانے والا بھی تقریباً اتنا ہی دیتا ہے۔ اس طرح ہمارا غریب کب سنورے گا اور امیر کی صحت کیوں ڈاؤن ہو گی؟
جناب وزیر اعظم، بعضوں نے پی ایم ایل این کو پرفیکٹ منی لانڈرنگ نیٹ ورک گردانا، مگر ہم نے ایسا نہیں کہا، آپ کے قوم کے خطاب کے بعد سوشل میڈیا پر یہ کہا گیا کہ اس خطاب اور ان مبینہ زیادتیوں کے بعد آپ تو زکوٰۃ کے حقدار ہیں۔ ( معافی چاہتا ہوں) ۔ ہم نے اس پر بھی کان نہیں دھرے، کاروبار کرنا کوئی غلط کام تو نہیں بلکہ یہ پیغمبری پیشہ ہے، کاروبار تو انسان دنیا کے کسی کونے یا کسی خطے میں بھی کر سکتا ہے۔ لیکن اگر آپ کا کاروبار اور آپ بے داغ ہیں، آپ کے من موہنے سے بچے ہر الزام سے مطہر ہیں تو ہم آپ سے ادنیٰ سی گزارش کرتے ہیں۔ آپ آئے روز وفود سے ملتے ہیں، بلاتے ہیں، خود بھی جاتے ہیں کہ اقوام عالم سے لوگ سرمایہ کاری کیلئے آپ کے ملک آئیں تو وہ خود مطالبہ کرنے والے اپنے ملک میں یہ سرمایہ کاری کیوں نہیں کرتے؟ اللہ کا دیا ان کے پاس کیا نہیں، دنیا کے امیر ترین خاندان بھی ہیں، پھر تو حب الوطنی کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ یہاں سے کمایا ہوا سرمایہ اسی ملک میں لگایا جائے، کیا پاکستانی بنک اغیار کے ہیں یا قابلِ بھروسا نہیں؟ اس بات کا علم تو آپ کو بھی ہے کہ اگر آپ جیسے دوسرے چند خاندان اپنا سرمایہ اپنے ملک میں انویسٹ کریں تو یہ ملک ایشیائی ٹائیگر کیونکر نہیں بنے گا، ہم تو آپ سے یہ امید بھی رکھتے ہیں کہ آپ تمام امیر ترین خانوادوں کی باہر پڑی دولت وطن لانے کی مہم چلا ئیں یقین جانیں لوگ آپ کی آخرت سنوار دیں گے۔ ایسے مت کریں کہ ہمیں اپنے ملک کاروبار کی ترغیب دیں اور خود باہر کاروبار کریں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے آ پکی پہل میں بڑے بھائی زرداری صاحب بھی سرمایہ وطن واپس لے آئیں اور ہم ایشیا کے شیر بن جائیں۔ حکمرانو سنو، سرے محل بہت شور مچا ہے۔ اب آپکو اس قوم اور وطن کی حیات جاودانی کیلئے کچھ کرنا ہے، یہ قوم آپکے تمام داغ اور کردار پر پڑے سیاہ دھبے دھو دے گی۔ مگر ان کی آرزؤں پر پورے اترو، تواڈے بچے جیون۔
No comments