• Breaking News

    خدا را تھر میں سسکتی انسانیت بچا لیجئے


    پاکستان کا ایک مشہور علاقہ تھر ہے، جس کی تاریخ قحط سالی سے منسوب ہے، یہاں باران رحمت سے علاقہ جنت نظیر بن جاتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تھر کی قسمت کا تعلق براہ راست بارشوں سے ہے۔ لیکن اگر بارش نہیں ہوتی تو نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں کیلئے بھی فاقے مقدر میں آتے ہیں۔ اس قحط میں ایک طرف جانور مر رہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف بچے اور بوڑھے اپنی جانیں دیتے ہیں۔ تھر جائیں تو دل "تھرا" جاتے ہیں، جانور جس حالت میں بیٹھے وہیں دم توڑ گئے اور ویسا ہی ڈھانچہ فکس ہو گیا۔ تھر میں جابجا جانوروں کے ڈھیر نظر آتے ہیں ، جو عبرت کی علامت گمان ہوتے ہیں۔ مگر یہ عبرت ہمارے سائیں سرکار اور سندھ کی باقی کابینہ کیلئے نہیں۔ بلکہ یہ عبرت ایک عام آدمی کیلئے ہے ، جو یہ منظر دیکھ کر لرز جاتا ہے۔یہ شخص ایسی تنظیم /این جی اوز کی کھوج میں نکلتا ہے کہ وہ انکے ذریعے ممکن امداد کر سکے۔ یقین جانئے یہ جو تھر میں ابھی زندگی باقی ہے یہ فلاحی تنظیموں اور ایسے دوسرے اداروں کی مرہون منت ہی ہے، ورنہ سندھ حکومت بہت دیر پہلے تھر کا اجتماعی جنازہ پڑھ چکی ہے اور اس کے باشندوں کو سپرد خاک کر چکی ہے۔ 

    اس لمحے اپنی یادداشت کا ایک واقعہ رقم نہ کروں تو شاید میں تھر کے لوگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے ادھورا سا لگوں۔ نومبر ۲۰۱۵ء میں کراچی جانے کا اتفاق ہوا۔ اس سے قبل بھی متعدد بار کراچی گیا، مگر ہوائی سفر میں وہ لطف محسوس نہیں کیا جو اتنے بڑے اور لمبے سفر کا محسوس ہوناچاہئے تھا۔ 1500کلومیٹر1گھنٹہ اور 40منٹ میں طے ہو جائے تو یقیناًسفر کے حقیقی اغراض و مقاصد حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ اسی لئے اب کے بار ریل گاڑی کو اپنی سواری بنایا اور یوں یہ میری زندگی کا یادگار سفر ٹھہرا۔ اس سفر میں میری آنکھیں اس وقت پُر نم ہو گئیں جب آنکھوں نے ہر طرف خشک ٹیلے، سوکھی جھاڑیاں اور اُڑتی ہوئی خاک دیکھی۔دور دور تک نگاہوں نے زندگی کا تصور نہیں دیکھا۔ ہاں اگر کچھ دیکھا تو وہ تھر کے لوگوں کے دلوں میں امید باقی دیکھی۔ پٹڑی کے ارد گرد کھڑے بچے رُلا گئے جب وہ اپنے چُلو (ہاتھ) پھیلائے ہوئے تھے کہ کوئی انہیں پینے کیلئے پانی کی بوتل پھینک دے کہ وہ اپنی حلق تر کر سکیں۔ مگر 120کلومیٹر سے زائد کی رفتار پر چلنے والی ریل گاڑی نے میرے سمیت کسی کو کوئی موقع نہ دیا۔ ہم کوئی مدد نہ کر سکے۔ اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے گاڑی ان سے کہیں دور چلے گئی اور انکے ہاتھ کھلے کے کھلے ہی رہ گئے۔ اس وقت یہ بات میرے ذہن اور دل پر نقش ہوگئی۔ میں آج بھی چاہتا ہوں کہ اللہ مجھے توفیق دے تو میں اپنے حصے کی ہر ممکن مدد کر سکوں۔ بلکہ میں نے اس محرومی کے ازالے کی کوشش اسی سفر میں بھی کی۔ جب حیدرآباد سے ایک مسافر سوار ہوا ، جو انتہائی لاغر، بوڑھا ، پچکے گال ، سوہنی رنگت، داڑھی میں گنتی کے چار سیاہ بال ۔ یہ بزرگ بغیر ٹکٹ سوار ہوا اور خوش قسمتی کہ گارڈ نے اسکے ساتھ تعاون کیا۔ وہ آیا اور کوچ کے گیٹ کے پاس نیچے ہی بیٹھ گیا۔ کچھ دیر میں اپنی جگہ بیٹھا رہا مگر مجھے احساس ہوا کہ میں خود اُٹھوں اور انہیں بیٹھنے کا موقع دوں۔ اس بزرگ نے میرے خلوص پر گھوڑے دوڑا دئیے لیکن اچھا یہ لگا کہ اس نے کہا "بیٹا بیٹھا رہ میں یہاں ٹھیک ہوں۔" اس ایک مکالمے کے بعد میں حسب عادت ان سے مختلف نوع کے سوال کرنا شروع ہو گیا، پوچھا کہ بابا جی آپ کراچی کیوں جا رہے ہیں تو جو جواب ملا وہ بظاہر حقیقت کے برعکس مگر عین حقیقت تھا۔ "بیٹا اتنا بڑا شہر ہے کراچی، کروڑوں لوگوں کو روزی دیتا ہے ، تو مجھے بھی کوئی کام مل جائیگا اور میں بھی اپنے اور بچوں کے پیٹ کیلئے کچھ کما سکوں گا۔" بزرگ کی اس امید نے مجھے جھنجوڑ کر رکھ دیا کہ اے بندے یہ اللہ کی کیسی مخلوق ہے جو اس ہستی سے ہر لحظہ اک آس، امید کے سہارے زندگی بسر کر دیتی ہے، ناشکری تک ان کے بیان میں نہیں آتی۔ اس جواب پر خیال آیا کہ نہ جانے کتنے روز سے اس نے کچھ کھایا ہے، پیا ہے یا نہیں۔ مگر پھر بھی اس کی ربّ توقلی عروج پر۔۔۔ ڈھیروں باتیں ہوئیں ، یہ اچھا ہو گیا کہ وہ بزرگ اُردو جانتے تھے اور بہت ساری باتیں پوچھیں اور جواب ملتا رہا۔ جب لانڈی اسٹیشن آیا تو میں نے پوچھا یہاں اترنا ہے تو کہا یہاں تو نہیں اترتا، کینٹ اتروں گا، جہاں سے کوئی کام بھی مل جائے اور یہاں کون پوچھے گا؟ اسی دوران میں نے تہیہ کر لیا کہ میں اپنی جیب میں ایک روپیہ نہیں رکھوں گا اور گنے بغیر اس بزرگ کو دے دوں گا، وہ کھانا کھائے، کہیں آنا جانا چاہے تو کوئی دشواری محسوس نہ ہو۔ غرض کینٹ اسٹیشن پر اترتے ہوئے میں نے اپنے "والٹ" سے تمام پیسے نکال کر اس بزرگ کو دئیے اور ایک ہی سانس میں اسنے ہزاروں دعائیں دیں۔ مگر اس لمحے جو خوشی اور لذت محسوس ہوئی وہ لذت زندگی بھر کسی ایک اچھے کام سے شاید نصیب نہیں ہوئی۔ میرے دوسرے ہم سفر پروڈیوسر جواد حسن بلوچ نے اسٹیشن سے ہوٹل تک ٹیکسی کا کرایہ بھرا اور یوں ہم ہوٹل پہنچے۔ میں اس پر جواد بھائی کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے میرا ارمان پورا ہونے دیا ۔ 
    قارئین تھر سندھ کا وہ بد نصیب علاقہ ہے ، جس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اس علاقے سے غرض نہ کسی حکومت کو ہے نہ اپوزیشن کو اس سے کوئی سروکار۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو این جی اوز بھی اپنا واجبی کردار ادا کرنے سے معذور رہیں۔ یہاں غربت اور افلاس نے تو پہلے ہی ڈیرے ڈال رکھے تھے مگر اب یہاں موت نے آن بسیرا کیا ہے۔ آئے روز تھر کے بچے ابدی نیند سو جاتے ہیں اور اخبارات اسے رپورٹ کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں بھی بھوک اور بیماری کے سبب تین ننھی جانیں لقمہ اجل بن گئیں۔ علاج و معالجے کی سہولیات حکومت سندھ کی اولین ترجیح ہونے کے برعکس وہ خود کو اس سے بری الذمہ سمجھتی ہے۔ گزشتہ برس بھی تھر میں علاج معالجے کی عدم دستیابی پر سینکڑوں بچے اور بوڑھے افراد جان گنوا بیٹھے۔ مگر یہاں حکومتی وزراء کے بیان ایسے ہوتے ہیں کہ زخموں پر مرہم کے بجائے نمک چھڑکنے کا باعث بنتے ہیں۔ یہاں آئے روز انسانی جانوں کی ہلاکتوں کے باوجود حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ رواں ماہ بھی ہلاکتوں کی تعداد 32ہے اور 70بچے تھر کے مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ یہ اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ تھر میں انسانیت دم توڑ رہی ہے اور ہم سفاک اور بے رحم ہوچکے ہیں۔ تھر کے ان لوگوں کیلئے کوئی وہاں نہیں پہنچ رہا۔ اب تو غیر سرکاری فلاحی تنظیمیں بھی تھر میں دکھی انسانیت کی خدمت سے نہ جانے کیوں کتراتی ہیں۔ شاید یہاں ساز باز نہیں، کوریج نہیں ملتی یا کچھ اور ۔۔۔ مگر یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ دوسری طرف حکومت سندھ کی ہٹ دھرمی برقرار ہے اور اس ضمن میں حکومت نے فنڈز جاری کئے نہ ہی ڈسپنسریز کے بجٹ دیئے اور نہ ہی انہیں فعال بنانے کیلئے کسی قسم کے اقدامات سامنے آئے۔ 
    یہ بیڈ گورنس کا شاخسانہ نہیں تو اور کیا ہے۔ غریب بیچارا مارا جاتا ہے،،، مگر ان کیلئے ہمدردی کے دوبول بولنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ یاد رہے تھر میں بھوک، غربت اور علاج کے بغیر موت کے منہ میں چلے جانے والی جانیں اتنی ہی قیمتی ہیں جتنی اس طبقہ اشرافیہ کے بچوں کی۔ یہ اشرافیہ ایک طرف ملک کا استحصال اور دوسری جانب لوگوں کا خون نچوڑ رہا ہے۔ کیا ہم ایک مردہ سماج میں نہیں رہ رہے؟ جس میں انسانی اقدار ناپید ہی نہیں دم توڑ چکی ہیں۔ کیا ان معصوم بچوں کی آہ و فغان سے عرش لرز نہیں جاتا ہوگا؟ مگر ہمارے وزراء اندھے ، گونگے اور بہرے ہیں۔ جنہیں میڈیا کی نشاندہیاں نہیں نظر نہیں آتیں، ماؤں کی آہ فغان نہیں سنتی اور گونگے ہیں کہ اپنی کوتاہیوں کا اعتراف نہیں کرتے۔ یہ سب مسلسل معاملات سے پہلو تہی کر رہے ہیں۔ ایک عام پاکستانی یہی تمنا کر سکتا ہے خدارا تھر میں سسکتی انسانیت کو بچا لیجئے!

    No comments