• Breaking News

    اکھنڈ بھارت کی طاقت، صفر!


    بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں اپنے ظلم کا بازار گرم رکھنے کا سلسلہ جاری و ساری رکھتے ہوئے ریاستی دہشت گردی کو کشمیری عوام پر مسلط کر دیا ہے، اس ریاستی جبر کے نتیجے میں نہ صرف حریت پسند تحریک کو کچلنے کی کوشش کی جارہی ہے بل کہ کشمیری عوام کو بنیادی حقوق سے بھی دست بردار کر دیا گیا ہے۔ مسلسل کئی کئی روز کے کرفیو سے کاروباری و سماجی زندگی تعطل کا شکار رہتی ہے، علاوہ ازیں عید الاضحیٰ کی نماز پڑھنے سے بھی روکا گیا اور یوں سر عام کشمیریوں کی حق تلفی پوری دنیا خاموش تماشائی بنے دیکھ رہی ہے۔ صورت حالات کو بھانپتے ہوئے اس ضمن اب عالم اسلام اور عرب لیگ کی جانب سے اظہار یکجہتی کے پیغام کی ضرورت تھی لیکن بد قسمتی سے بھارتی دہشت گردی کے خلاف کوئی ایکا سامنے نہ آیا۔ صورت حالات یہ ہے کہ بھارت روز بہ روز بے لگام ہوتا جا رہا ہے۔ جس کے نتیجہ میں اب بھارت نے پاکستان کے خلاف دھمکی آمیز روش اختیار کر کے خطے کی سلامتی کے لئے خطرات پیدا کر دئیے ہیں۔ پھر بھارت کی جانب سے بلا تحقیق پاکستان پر الزامات بھی کچھ اچھی روش نہیں ہے۔ یہ سب بھارت کو سمجھانے والے کم ہیں کہ وہ اپنے لئے مشکلات پیدا نہ کرے اور بلا ضرورت اشتعال انگیزی کو اپنے مستقبل کے لئے قطعی طور پر نہ مثبت نہ سمجھے۔ مگر بھارتی موجودہ و سابقہ حکم ران اس حقیقت کا ادراک نہیں کر پا رہے۔ اور نتیجتاً ان شاء اللہ مستقبل قریب میں منہ کی کھائیں گے۔ کیوں کہ یہ سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور بھارت کی راشٹریہ جنتا دل کے لیڈر لالو پرساد نے خبردار کیا ہے کہ کشمیر آہستہ آہستہ بھارت کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ لہٰذا بھارت سے امید ہے کہ وہ جلد ہی اپنے عزائم اور حکمت عملیوں پر نطر ثانی کرتے ہوئے اپنا محاسبہ کرے گا، پھر اگر ایسا نہیں ہوتا تو آنے والا وقت خود بھارت کو معاف نہیں کرے گا۔ 
    قارئین، پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے بھارت کے رویے کا بروقت نوٹس لیتے ہوئے جو عالمی رائے عامہ کی توجہ جارحانہ عزام کی جانب مبذول کرانے علاوہ ملکی سلامتی و خود مختاری کے دفاع کے لئے غیر منتزلزل عزم کا اظہار کیا ہے، اس نے بھی بھارت کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ مسئلہ کشمیر اب صرف علاقائی تنازعہ نہیں رہا بل کہ عالم انسانیت کا مسئلہ بن گیا ہے۔ حق خود ارادیت کو کچلنے کے اس منصوبے پر صرف پاکستان کو سروکار نہیں ہونا چاہئیے بلکہ اقوام عالم کو اس مسئلے کے حل کے لئے میدان عمل میں آنے کی ضرورت ہے۔ کشمیریوں کی نسل کشی ہو رہی ہے، غیر انسانی سلوک برتا جا رہا ہے، زیر حراست کشمیری نوجوانوں کو بجلی کے شاک دئیے جاتے ہیں، خواتین کے ساتھ بھارتی افواج جنسی تشدد کرتے ہیں، مجاہد قرار دے کر دس نوجوانوں کا بے رحم قتل کیا جاتا ہے، اس سب پر عالمی تشویش ناگزیر ہے۔ حیرت در اصل اس بات پر ہے کہ امریکا خود کو نہایت پاک باز اور منصف سمجھتا ہے لیکن بھارت کے معاملے پر اس کی ڈیل اس کے عزائم آشکار کردیتی ہے کہ وہ خطے میں امن کا خواہاں نہیں ہے۔ امریکا بذریعہ بھارت اور بھارت بذریعہ افغانستان پاکستان پر بے جا دباؤ ڈال کر کیا چاہتا ہے؟ جان کیری سے بھی نواز شریف کہہ کہلا کر مذمتی بیان لیتے ہیں تو کیا یہ امریکا کی انسانیت سے دوستی کی عکاسی ہے یا دشمنی کی؟ کیا امریکا اس بات سے بھی نابلد ہے کہ دونوں ایٹمی طاقت کے حامل ملک ہیں؟ اور پھر بھارت کیا یہ بات نہیں سمجھتا کہ خدا نہ خواستہ اب جو جنگ ہوئی تو وہ روایتی ہتھیاروں سے نہیں بل کہ ایٹمی ہوگی اور زیادہ تر نقصان بھی اسی کا ہو گا۔ اس حوالے سے بھارتی جنتا کو چاہئیے کہ وہ اپنے حکم رانوں کو امن کی راہ پر لگنے کا مشورہ دے، نہیں معلوم بھارتی حکم ران اپنے عوام کو مشکلات اور امتحانات سے گزار کر کیا چاہتے ہیں۔ محض دشمنی کی خاطر؟ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو حکم ران تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے تاریخ انہیں عبرت ناک اور ہول ناک زمینی و معروضی حقائق کے تھپیڑوں کی نذر کر دیتی ہے۔ لہٰذا تاریخ یہی چشم کشا کھیل کشمیر میں بھارت کے حکم رانوں سے کھیل رہی ہے۔ جب کہ بھارت کی عاقبت نا اندیشیوں، ظلم و بربریت اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو کچلنے کے نتیجہ میں کشمیر کا مسئلہ ایک طرف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں زیر بحث ہے اور پھر دوسری جانب فلیش پوائٹ بن کر ابھرا ہوا ہے۔ جو حالیہ مد و جزر میں عالمی ضمیر کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے، بھارتی عسکری و سیاسی حلقوں8 میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ حالانکہ بعض اخباری اطلاعات یہ بھی ہیں کہ بھارتی افواج نے مودی سرکار کو پاکستان سے جنگ نہ لڑنے کا مشورہ دیا ہے۔ اگر اڑی حملہ کے حقائق جانے جائیں تو اس میں بھی بھارتی فورسز کی غفلت ہی منکشف ہوتی ہے۔ جس کی خفت کو مٹانے کے لئے اب خطے کو بھارتی رد عمل کے پانچ نکاتی جنگی لائحہ عمل سے ڈرایا جائے گا، جس میں سرجیکل سٹرائکس، سرحد پر خفیہ کاروائی، کشمیر میں اضافی فوج کی تعیناتی، بارڈر فورس کی مضبوطی، اپنے ہائی کمشنر کی جبری واپسی اور بلو چستان کارڈ کھیلنے کی نئی شدت آمیز حکمت عملی بھی شامل ہو سکتی ہے۔ اس ضمن ارباب اختیار اور عسکری قیادت کو ہر قسم کے حالات کے لئے خود کو ہمہ وقت تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ چوں کہ خطے کی ڈائنا مکس کو بھارتی جنگی جنوں اور دھمکیوں سے شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، جس کے لئے ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ پاکستانی حکام اس خاطر بعض ہنگامی اقدامات شروع کر رہے ہیں۔ جو نیک شگون عمل ہے۔ اسی تناظر میں وزیر اعظم نے بھی "مشن کشمیر" ایجنڈا کے تحت بھارتی دھمکیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے واضح کہا ہے کہ اشتعال انگیز بیانات سے پورے خطے کا امن و استحکام خطرے میں پڑ جائے گا۔ بھارت پر پریشر بلڈ کرنے کے لئے ترک صدر نے اسلامی کانفرنس کی انسانی حقوق کمیٹی کے چئیرمین کی حیثیت سے فیکٹ فائنڈنگ کمیشن بھیجنے کے انتظامات شروع کر دئیے ہیں۔ ترک صدر طیب اردگان نے پاکستان کی حمایت میں یہ بھی کہا ہے کہ ترک اور پاک یک جان دو قالب ہیں۔ سو باتوں کی ایک بات کہ اگر خطے میں امن ہی مقصود ہے تو حکام کی ایسی کوششیں مثبت نتائج کا پیش خیمہ ہو سکتی ہیں اور طاقت کا استعمال کئے بغیر مسئلہ افہام و تفہیم سے سلجھایا جا سکتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارا کم زور رد عمل بھی بھارت کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ ہمیں اپنا معذرت خواہانہ لہجہ اور رویہ ترک کر کے دو ٹوک موقف اختیار کرنا چاہئیے۔ شاید بھارت بھی ایسے ہی رویے کے لئے ہمیں اکسا رہا ہے۔ بھارت نے اگرچہ اپنے مجموعی بجٹ کا زیادہ حصہ دفاع پر صرف کیا ہے، عوام کو بھوکے ننگے رکھ کر جنگی ساز و سامان ہی تیار کیا ہے لیکن اس کے باوجود بھارت کی ذرا ذرا اور بار بار دفاعی ناکامیاں اکھنڈ بھارت کی طاقت صفر بتاتی ہیں۔

    No comments