کم از کم دشمن کی پہچان تو کریں
غدار کا لفظ سامنے آتے ہی ہمارے ذہن میں چند باتیں گھومنے لگتی ہیں۔ ایک معمولی و عام انسان بھی اس بات کو آسانی سے سمجھ لیتا ہے اور اپنے اپنے ذہن کے مطابق مطلب اختراع کرتا ہے۔ جبکہ اہل دانش کے نزدیک "غدار" کی تعریف میں تو میر جعفر اور میر صادق بھی غدار نہیں ہوں گے۔ غداری وہ فعل ہے جس کا کوئی ملک یا ریاست متحمل نہیں ہو سکتا۔ مگر اس حوالے سے پاکستانیوں کا دل بہت بڑا ہے۔ وہ "بے وفاؤں" کو بھی اعلیٰ اعزازات سے نوازتے ہیں۔ "ملک دشمن" اور "محب وطن "میں فرق بڑا آسان ہے۔ محب وطن وہ ہے جو اپنے وطن، اپنی قوم کا کٹھن حالات میں بھی دفاع کر ے اور دل میں محبت رکھے۔ تاہم ملک دشمن وہ ہے جو ملک و قوم سے دھوکہ کرے، اس کے مفید مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دشمن کی زبان بولے۔ ایسے موقع پر ملک کے خلاف ہرزہ سرائی کرے جب دشمن کی توپوں کا رخ ہماری طرف ہو۔ وطن عزیز میں "بے وفائی" کی تاریخ بھی ذرا پرانی ہے۔ ہم نیک گمان ہیں اور کسی کو "ملک دشمن" کہنے میں اتنی دیر کر دیتے ہیں کہ وہ کم از کم ہماری جڑوں کو کھوکھلا کر چکا ہوتا ہے۔ جس کی دوبارہ آبیاری کرنے کے لئے ہمیں بیس بیس سال صرف کرنے پڑ جاتے ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ کے قائد پچھلے بیس سال سے پاکستان کے خلاف جو زبان دراز کرتے رہے ہیں، اس پر ایک عام انسان بھی اپنی رائے میں "ملک دشمن" مانتا ہے۔ لیکن اہل صحافت کو ہمیشہ اس بات پر مختلف دلیلیں گھڑتا پایا گیا۔ چاہے وہ "را" کو مدد کے لئے ہی کیوں نہ پکاریں، ہمارے احباب ذی وقار انہیں غداری سے تعبیر نہیں کرتے۔ پھر یہ بھی کوشش کی جاتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح دفاع کیا جائے۔ جس کا نقصان یہ ہوا کہ بیس سال میں کتنے لوگ کراچی میں مارے گئے۔ اس جرم میں ہر وہ شخص شریک ہے جو الطاف حسین کو "ملک دشمن" کہنے والوں پر چڑھ دوڑتا تھا اور ایسے بھی تو ہیں جو عدالت تک ان کا دفاع کرنے گئے۔ یا پھر ایسے رہنما جو اپنی حکومت قائم کرنے کے لئے الطاف حسین آف لندن کو محب وطن ثابت کرتے رہے۔ کیا ہم لوگ اس بات کے منتظر ہوتے ہیں کہ کوئی پاکستانی پرچم نذرِ آتش کرے گا تو ہماری غیرت جاگے گی؟ یا اس وقت کے منتظر ہوتے ہیں کہ کوئی پاکستان کے خلاف نعرے لگائے اور میڈیا ہاوسز پر حملہ کرے، تب غیرت جگائیں گے؟ ہماری دانش میں ایسے ناسور اگر بیس سال قبل ہی نامراد ہو جاتے تو کراچی میں اس قدر خون کی ہولی نہ کھیلی جاتی۔ مگر ہماری دانش وری کا اعجاز ہے کہ جو صرف ان کے لبرل ہونے کو ان کے گناہوں کی معافی بنا کر پیش کرتے ہیں۔ بیس سال کا یہ تجربہ بھی دیکھ لیں اور اس کے نقصانات بھی۔ جناب محمود اچکزئی کو جب ملک دشمنی سے جوڑا گیا تو اہل صحافت نے اس پر بھی فتویٰ مانگا کہ کیوں؟ ہم کون ہیں "غدار" کہنے والے؟ کیا جناب اچکزئی صاحب کی افغانستان سے وفاداری کسی سے ڈھکی چھپی ہے؟ جو چند برس کے علاوہ ہمارا حقیقی دوست ہی نہیں رہا۔ جس نے ایمبیسیاں تک جلائیں۔ انڈیا کی حمایت میں ہمارا پرچم جلا دیا گیا۔ اس وقت جب افغانستان اور انڈیا کا پروپیگنڈا پاکستان کے خلاف عروج پر تھا۔ اچکزئی صاحب نے کیا حب الوطنی کے تحت بیان دیا تھا یا ملک دشمنی میں؟ مگر ہماری نرالی سیاست کو سیلوٹ کریں جو ان کے بھائی کو گورنر تک بنا دیتی ہے۔ محض اپنے مفادات کے لئے۔ یاد رکھیں اگر ہم نے بیس سال بعد جناب اچکزئی پر غداری کا فتویٰ لگانا ہے تو اس سے بہتر ہے ہم آج ہی ایسے لوگوں کا احتساب کریں تا کہ جو تجربہ ہم نے کراچی میں کیا وہ دہرایا نہ جا سکے۔ جب بھی بلوچ نیشلسٹوں کو کوئی غدار کہتا تھا تو صحافت کے امین یہ کہتے رہے کہ وہ اپنی محرومیوں کی بدولت ایسا رد عمل دے رہے ہیں۔ یوں ان کی جنگ کو جسٹیفائی کیا جاتا رہا۔ جب بھی انہیں را کا ایجنٹ کہا جاتا تو ہمارے مہر بان اس کا ٹھٹھا اڑاتے نظر آتے۔ لیکن کیا ہوا آج مودی کے سرپرست ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے۔ کئی برس کی جنگ میں ہم اپنی صحافت سے"محرومی کا چورن" بیچ کر ان کو نوجوان نسل کا ایندھن فراہم کرتے رہے ہیں۔ آج ہم شرمندہ ہو سکتے ہیں کہ قوم پرست غدار نکلے، تو یہ ہم نے پہلے کیوں نہ کیا۔ اس وقت ہماری زبانوں پر تالے لگے ہوئے تھے۔ پاکستان سے غداری کی تحریک بہت پرانی ہے۔ اس گنگا میں کئی لوگوں نے ہاتھ دھوئے ہیں۔ باچا خان سے کون وقف نہیں ہے۔ ان کی پاکستان سے محبت کا تذکرہ کس سے چھپا ہوا ہے۔ 1948ء کی وزیرستان جنگ کی پلاننگ سے لے کر گریٹر پختونستان کا خواب، بعد ازاں گاندھی جی کو یہ کہنا کہ "تم نے ہمیں بھیڑیوں کے آگے پھینک دیا ہے"۔ یہ سب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں محب وطن غدار کہتے ہوئے تاخیر نہیں کرتے۔ لیکن اہل دانش کے نزدیک وہ پوتر ہیں۔ باچا خان کی زندگی میں افغانستان کبھی ہمارے لئے پر امن جگہ نہیں رہا ہے۔ مگر کیا ہم نے انہیں غدار کہا؟ کیا انہیں غدار کہنے کے لئے کوئی الہامی قسم کی دلیل درکار ہے؟ کیا بھٹو صاحب کا فیصلہ درست تھا انہوں نے باچا خان پارٹی کو بین کیا؟ تو پھر کیا ہوا کہ اسی فکر کے لوگ آج ہمارے لئے معزز اور محترم بن کر پھر رہے ہیں۔ باچا خان کالا باغ ڈیم کا دشمن تھے، آج اس کے پیروکار بھی اس کے دشمن ہیں۔ یہی اے این پی چند برس پہلے کراچی میں خون کی ہولی کھیلنے میں ایم کیو ایم کے شانہ بشانہ رہی۔ پھر آخر کیا وجہ ہے ہم ملک دشمنوں کو غدار کہنے میں اتنی تاخیر کرتے ہیں۔ ان کا اپنے نظریے میں مخلص ہونا پاکستان کے لئے کب سود مند ثابت ہوا۔ جو ہم ان کی عزمت کو ایسے پیش کریں کہ وہ ایک بہتر ین لیڈر تھے۔ یقیناً وہ اپنوں کے لئے مخلص ہوں گے۔ تو پاکستان کہاں گیا؟ ان کو ایوارڈ ملا تو بھی بھارتی، نظریہ ملا تو بھی بھارتی، ان کو ننگے نظر آئیں تو مسلم لیگی، انہیں بھیڑیے لگیں تو دو قومی نظریے کے حامی اور دم مرگ دو گز زمین چاہیں تو افغانی۔۔۔ پاکستان کہاں گیا؟ غداری یہ نہیں تو کیا ہے؟
ذرا سوچیں، محب وطن کی تعریف کیا ہوتی ہے؟ غدار کسی کے ماتھے پر تو نہیں لکھا ہوتا۔ قطعی طور پر نہیں۔ بلکہ انسان کا عمل ہی اس کے لئے کافی ہوتا ہے۔ مگر ہم نے کیا کیا اس پر۔ دشمنوں نے 2013ء میں اپنی آزادی کا "ایوارڈ" دیا جس کا نام "جنگ آزادی کے دوست" اور حیرانی کا عالم تو یہ کہ حکومت پاکستان نے بھی 2013ء میں ہلال امتیاز سے نوازا اور ان کے نام کے انڈر پاس بھی بنائے۔ یہی ایوارڈ اندرا گاندھی کو بھی ملا اور کئی بھارتی نیتاؤں کو ملا۔ ذرا یہ بھی سوچیں محترمہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ جن کے والد صاحب کو بھی یہی ایوارڈ بنگلا دیش کی طرف سے دیا گیا۔ ان کی پاکستان مخالف باتیں۔۔۔ کیا انہیں محب وطن کہا جائے؟ وہ الطاف حسین کے کیس لڑیں؟ الطاف حسین تو غدار مگر عاصمہ صاحبہ عزیم خاتون؟ میں ان سب لوگوں کو پاکستان کا غدار نہیں سمجھتا۔ مگر ان کے فعل اور حالات کا آپ قارئین خود تجزیہ کر کے رائے قائم کریں گے۔ آخری بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں صحیح اور غلط کی تمیز جلد ہی کر لینی چاہئیے۔ ہمیں غدار پہنچاننے میں اتنی ہی دیر لگانی چاہئیے جتنی راشند منہاس نے لگائی تھی۔ اس سے زیادہ دیر ملک و قوم ایفورڈ نہیں کر سکتے۔ کم ازکم دشمن کی پہچان تو کریں۔
No comments