• Breaking News

    عمران‘ قادری ذاتیات کی سیاست کے نرغے میں


    پاکستان کے معروضی حالات کی اذیت ناکی جو دہشت گردی کے ھوالے سے ابھر کر سامنے آتی ہے۔ ساری دنیات اس کا بہ خوبی ادراک کئے ہوئے ہے۔ ماسوائے بھارت کے جس نے پاکستان میں دہشت گردی کے نتائج اپنے مغموم مقاصد کی صورت ھاصل کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس صورتحالات میں پاکستان کی چند سیاسی جماعتیں اور ان کے لیڈر اس کچھوے کی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہیں جو بپھرے ہوئے دریا یا سمندر کے کنارے بکھری ہوئی ریے میں منہ چھپا کر بیٹھا ہوا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ سر پر کھڑا طوفان اسے کچھ نہیں کہے گا۔ ملکی حالات بارے ان قرائن کی تصدیق کوئٹہ کی حالیہ دہشت گردی کے بعد عمران خان اور طاہر القادری کی دھرنا سیاست کے وقتی طور پر التوا سے بھی ثابت ہوتی ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ کیا پاکستان کے موجودہ معروضی اور داخلی حالات ایجی ٹیشن اور دھرنا سیاست ایسے اقدامات کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں؟ اس ضمن عوام الناس کی رائے سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ جن کی رائے میں دھرنا سیاست کے نتائج عملی طور پر دہشت گردی کو مہمیز کرنے کے بھی برآمد ہو سکتے ہیں۔ چہ جائے کہ دھرنوں میں خواتین اور بچوں کو بھی اکٹھا کر کے خطرات کے حوالے کر دیا جائے۔
    اس وقت پاکستان کے چاروں صوبوں کے بیس کروڑ عوام سانحہ کوئٹہ کے تناظر میں ماتم کناں ہیں۔ ان کے نزدیک پاکستان میں ہونے والی ہول ناک دہشت گردی ہی اولین چیلنج ہے۔ اس سے نبرد آزما ہونے کے بعد ہی کسی دھرنا سیاسے کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔ عوام الناس کی رائے اس قدر صائب ہے کہ اس کا ادراک عمران اور قادری دونوں فالفور کیا اور دھرنوں کی ملتوی کر کے بظاہر دانش مندی کا ثبوت دیا۔ مگر سوال یہ بھی ہے کہ ان کی دانست میں جو احتساب عدالتوں اور تفتیشی اداروں سے نہیں ہو سکا۔ وہ از سر نو سڑکوں پر دھرنا دینے سے کیسے ممکن ہے؟ پاکستان کی عملی سیاست میں دھرنے دینے کی روش تا حال سب سے فرسودہ ثابت ہوئی ہے کہ جس کے کوئی مثبت اور دیر پا نتائج بر آمد نہیں ہو سکے ہیں۔ یہ محض راقم الحروف کا ہی خیال نہیں ہے بلکہ سیاسے پر عمیق نظر رکھنے والے اہلِ نظر رکھنے والے اہلِ فکر و دانش کا بھی یہی کہنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے نہتے اور غریب عونا جو مشکل ترین سیاسی مراحل سے دوچار کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ پاکستان میں بسنے والی اشرافیہ سے قطع نظر غریب اور متوسط اکثریتی عام کے پاس وسائل ہیں اور نہ ہی وقت، وہ روزی روٹی کے گنجلک مسائل میں گر کر زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمارے سیاسی رہنماؤں کو ان کی حالت زار کا مکمل ادراک ہونا چاہئیے۔ ایسے سیاستدان جو چندے کے زور پر لکھ پتی، کروڑ پتی اور اب ارب پتی بن چکے ہیں۔ غریب عوام کے معاشی مزاج کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ احتساب کی فراوانی اور نواز شریف اور اس کی فیملی کا احتساب بجا لیکن اگر دھنوں کے لئے ہونے جاتا تو 2014ء ہی میں اس کے مثبت نتائج برآمد ہوتے۔ عوام یہ بھی پوچھتے ہیں کہ ایک ناکام تجربے کا اعادہ کرنے کی حکمت عملی آخر کیوں دہرائی جا رہی ہے۔ سیاست میں حقائق و شواہد کے ساتھ ساتھ تجربات بھی بین بین چلتے ہیں۔ کامیاب سیاستدانوں کا یہ طور طریقہ نہین ہوتا کہ وہ منفی نتائج مرتب کرنے والے سیاسی تجربوں کو دہرائیں۔ لہٰذا اس بات کا سرے سے کوئیہ جواز ہی نہیں کہ لوگوں کو بار بار تختہِ مشق بنا کر اپنی سیاسی ضد اور ہٹ دھرمی کی تسکین کی جائے۔
    نفسیاتی طور پر عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی عملی سیاست کے قلابے آپس میں ملتے ہیں۔ دونوں کی مخالفت کا محور نواز شریف اور ان کا خاندان ہے۔ حالانکہ سیاسی طور پر مخالفت نواز شریف کی نہیں بلکہ ان کی پارٹی کی ہونی چاہئیے۔ اس مخالفت اور دشمنی میہں کئی مفروضوں کی بنیاد پر سخت ترین احتجاج کیا جاتا رہا ہے۔ اس کی ایک مثال عمران خان کی ہمشیرہ کی قاڑی روکنے اور انہیں اس ضمن میں ذہنی اذیت دینے کا واقعہ بھی ہے۔ اس موقع پر سارا الزام نواز شریف کی دختر مریم نواز پر عائد کیا گیا۔ جبکہ وہ سرے سے لاہور میں موجود ہی نہیں تھیں اور اسلام آباد میں تھیں۔ بعد ازاں غیر جانبدار اور مستند اداروں نے جب حقائق آشکارا کئے تو عمران خان کی ہمشیرہ کو بذرییعہ اخبارات معذرت کرنا پڑی۔ جبکہ عمران خان اپنے مفروضے پر قائم رہے۔ انہوں نے تو معذرت کا ایک لفظ بھی ادا نہ کیا۔ اس واقعہ سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ عمران خان کی نوا زشریف دشمنی اور مخالفت ذاتیات پر مبنی ہے۔ یہی روش طاہرالقادری نے بھی اپنا رکھی ہے،۔ عوامی عدالت سب سے ذیادہ حقیقت پاسند اور راست ہوتی ہے۔ لہٰذا عمران خان اور ان کی پارٹی کو آزاد کشمیر میں جس شکست کا سامنا ہوا۔ اس کے پس پردہ یہی حالات و شواہد تھے۔ یہ ذمہ داری بھی عمران خان اور طاہرالقادری پہر عائد ہوتی ہے کہ ونہوں نے میثاقِ جمہوریت پر دستکط کرنے والی ایک بڑی سیاسی پارٹی کو اپنی سیاسی ڈگر پر گامزن کر لیا ہے۔ حالانکہ پیپلز پارٹی کئی بڑے سیاسی امور میں حزبِ اختلاف کی جماعت ہونے کے باوجود مسلم لیگ نواز کی پالیسیوں کی ہم نوا رہی ہے۔ اس بڑی سیاسی جماعت کو بھی آزاد کشمیر مین عبرت ناک شجکست کا منہ دیکھنا پڑا۔زبان خلق کو نقارۂ خدا سمجھنے والوں کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی کو حالات و واقعات ی جاب سے اتنا بڑا انتباہ کبھی نہیں ملا۔ لیکن اس جماعت کی دانش مندی ہے کہ وہ عمران خان کی جانب سے مارشل لاء کے مبینہ بیان کے بعد مھتاط ہو گئی۔ اور اسے بہت قدم پیچھے ہٹنا پڑا۔ بلاول اور اعتزاز احسن کی جاب سے عمران خان کے ساتھ ایک ہی کنٹینر ہر یونے کا بیان بھی خاصی حد تک مشکوک ہو چکا ہے۔ تحریک انصاف کو ان حقاؤ کے بعد بھی اگر ہوش نہ آئے تو یہ ان کی کم عقلی ہو گی۔ سیاسی دانش ور اس موقف پر بھی تک قائم ہیں کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی سیاست زیادہ تر ان کی ذاتی ہٹ دھرمی اور ضد پر ہی قائم ہے۔ جس کا ملکی سیاست پر خوش گوار ہوبا عبث ہے

    No comments