بدلنا ہے تو مے بدلو، نظامِ مے کشی بدلو
کیا قوم کے کمزور کردار اور ملکی اداروں کی خراب کارکردگی کا ذمہ دار نظام ہے؟ اور کیا انقلاب برپا ہونے سے نظام درست ہو سکتا ہے، یہ دو سوالات ہیں جو ہمارے عہد کے مصلہ گاہے بگاہے قوم کے سامنے رکھتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں جسٹس امیر ہانی مسلم نے بھی یہ دو سوالات اس قرائن کے ساتھ پاکستانی عوام کے سامنے رکھے کہ ان حقائق سے انکار صریحاً ممکن ہی نہیں، کیا کوئی زی ہوش اس حقیقت سے انکار کر سکتا ہے کہ ہمارے تمام قومی ادارے زبوں حالی کا شکار اور ہمیں انکی مثالی کارکردگی کا چیلنج درپیش ہے۔ لیکن اصل صورتحالات یہ کہ نظام کی مجموعی خرابی میں کسی ایک شخص کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ اس ٹوٹ پھوٹ میں ہم سب برابر کے شریک ہیں۔ جسٹس ہانی کی یہ بات بھی صائب ہے کہ نظام درست اس لئے نہیں ہو پاتا کہ ہم خود ٹھیک ہی نہیں ہونا چاہتے۔ اقبالؒ کے بنیادی نظریات میں فرد اور جماعت دونوں کی اصلاح کا بیڑا اُٹھایا گیا ہے۔ فلسفیانہ طور پر فرد کی اصلاح کو اقبالؒ نے خودی کہا اور جماعت کی درستی کو بے خودی سے تعبیر کیا۔ اسی لئے اگر مجموعی نظام کو بدلنا ہمارا مطمح نظر ٹھہرے تو فرد اور جماعت دونوں کو بدلے بغیر یہ حدف حاصل نہیں کیا جاسکتا، لیکن بد قسمتی کہ ہم جماعت کی اصلاح تو چاہتے ہیں، فرد کی اصلاح کے ضمن میں ہم اپنی ذات کو منہا کر کے سنگین جرم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ابھی تک اس حقیقت کو نہیں چھو سکے کہ فرد سے جماعت بنتی ہے اور فرد کی اصلاح ہی جماعت کی اصلاح سے منتج ہوتی ہے۔ فرد اور جماعت دونوں لازم و ملزوم ہیں، یعنی ایک کی اصلاح دوسرے کی اصلاح ہے۔
حقیقتِ حال یہ بھی ہے کہ نظام بدلنے کیلئے عمل کی جو قوت درکار ہے ہم سستی و کاہلی کے سبب وہ سب کچھ کرنے کو تیار نہیں جو ہمیں اس ضمن کرنا چاہئیے۔ دراصل ہم اپنے آپ کو ٹھیک کرنا ہی نہیں چاہتے تو نظام کیسے درست ہوگا۔ "خود کو بدلتے نہیں، قرآن کو بدل دیتے ہیں" ہمارا المیہ ہی یہ ہے کہ ہم خواہشات کے بل بوتے پر زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور عملی طور پر کچھ نہیں کرنا چاہتے۔ جبکہ عمل قربانی پر بھی راغب کرتا ہے۔ پھر درست لائحہ عمل کیلئے راست سوچ بھی ضروری ہے اور ہماری سوچ منتشر ہے، واضح منزل کی جانب رہنمائی نہیں کرتی لہٰذا سوچ اور تصورات کی زبوں حالی کو دور کرنا ہوگا۔ جسٹس امیر ہانی نے درست کہا کہ لوگ دبئی سمیت دیگر ممالک میں سگنل نہیں توڑ سکتے جبکہ پاکستان میں ایسا نہیں ہے، ہم خود اپنے آپ سے انصاف نہیں کرتے۔ مجموعی نظام کی درستگی میں بنیادی عنصر تعلیمی نظام کا بھی ہے، ملک کے مجموعی نظام میں تعلیمی نظام ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس بات سے کون اختلاف کر سکتا ہے کہ ہمارے حاکم تعلیمی نظام کو جتنا بہتر بنانے کے دعوے کرتے ہیں تعلیمی نظام اتنا ہی بد حالی کا شکار ہے، اگر ہمارے سرکاری تعلیمی ادارے اس قدر جدید اور معیاری ہیں تو پھر ہمارے یہ حاکم و سیاستدان ان پر اعتماد کیوں نہیں کرتے اور ان کے اپنے بچے الِیٹ کلاس کے نجی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انتظامیہ اس عجیب روش پر توجہ کرنے اور اہمیت دینے کو تیار ہے؟ اگر یہ تمام دعوے زمینی حقائق کے متضاد ہیں تو پھر ہم کس جدت اور کس معیار پر سینہ ٹھونک ٹھونک کر غیر استدلالی منطقیں بھی پیش کرتے ہیں۔ یہ بات بھی اپنی جگہ حقائق سے بھرپور ہے کہ حکومت عوام کو احمق بنا کر اپنا وقت مکمل کر رہی ہے، جس کیلئے ایک کے بعد ایک سیاسی، اقتصادی اور معاشی شوشا چھوڑتی رہتی ہے۔
نظام کی اصلاح میں بنیادی نقطہ یہ ہے کہ 1973ء کے آئین میں بعض ایسی ترامیم کی جاتیں کہ جن کی رُو سے نہ صرف ملک میں رائج آئینی، تعلیمی اور معاشی نظام بہتر ہو سکے بلکہ اس نظام کو چلانے والے کُل پرزے بھی کرپشن سے پاک ہو سکیں۔ اس لئے کہ جب تک نظام کو چلانے والے کرپشن بد دیانتی اور اقرباء پروری سے پاک نہیں ہونگے، نظام چاہے کتنا ہی مثالی کیوں نہ ہو، کامیابی کے ساتھ رُو بہ عمل نہیں ہو سکتا اور وہ نتائج بھی نہیں لا سکتا جو ایک مثالی نظام کے خواص ہوتے ہیں۔ مثالی نظام کی بات کرتے ہوئے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ قرونِ اولیٰ میں مجموعی طور پر حضرت عمرؓ کا نظامِِ حکومت بھی اس سے زیادہ مثالی ہے، جسے یورپ نے اپنی ریاستوں میں پورے کا پورا لاگو کیا ہوا ہے۔ عوام الناس کی فلاح و بہبود ، بوڑھوں، بیواؤں، یتیموں اور بے کسوں کیلئے وسیع تر فلاحی منصوبے اور نظام کو چلانے والے ہر بد دیانتی سے پاک ہوں یہی حضرت عمرؓ کا نظامِ حکومت تھا، جو آج بھی ہمارے لئے قابلِ تقلید ہے۔ اسی لئے ہندوستان کے بڑے لیڈرگاندھی جی نے تقسیم سے قبل ہندوستان کیلئے بھی اسی طرح کا نظامِ حکومت نافذ کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ جس پر متعصب ہندؤں کو ان کا یہ جملہ راس نہ آیا اور شاید انہیں اسی پاداش میں قتل کر دیا گیا تھا۔ نظام کی تبدیلی کا تقاضہ کرتے ہوئے فانی بدایونی نے کیا خوب کہا ہے کہ:
بدلنا ہے تو مے بدلو، نظامِ مے کشی بدلو
وگرنہ جام و مینا کے بدل جانے سے کیا ہوگا
No comments