مسلمانوں کی پسماندگی،کونسی بیرونی طاقت ملوث ہے؟
چند صاف گو لوگوں کی یہی رائے ہے کہ مسلمان اپنی پسماندگی کے ذمہ دار خود ہیں۔ سو اگر ان کے حالات بدلنے کا سوال ہے تو سب سے پہلے ان کی ذہنیت کو بدلنا ہو گا۔ تو کیا مسلمان پسماندہ ذہنیت کے ہیں؟ اور کیا یہی وجہ ہے کہ وہ دنیا بھر میں پسماندہ ہیں؟ ان چند سوالات کا جواب تو آگے چل کر دیں گے، بل کہ آپ کو خود ہی مل جائے گا۔ مگر دیکھیں پاکستان اور اس کے ہمسایہ ملک بھارت کے مسلمان بھی متاثر ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں اخوان المسلمون نامی اسلامی تنظیم سر گرداں ہے، جس کا نعرہ "اسلام از سولیوشن" ہے۔ مگر مغرب ممالک میں بیٹھے اسلامی ممالک کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ یہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یعنی اسلام کے نام پر ہنگامہ آرائیاں ہیں، تو مسئلہ مسلمانوں کی ذہنیت کا ہے، جسے بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ مسلم رہنماؤں کا یہ اصرار ہے کہ دین اسلام کے پیغمبر حضرت محمدﷺ سائنس، جدت اور حصول جدید علم کے حق میں تھے۔ اس کا اشارہ یہاں ملتا ہے جب آپ ﷺ نے فرمایا "علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے"۔ نہیں معلوم کہ مسلمانوں نے حصول علم کے لئے چین کا رخ کیا یا نہیں، تاہم جنگیں لڑنے کے لئے دنیا کا چپہ چپہ چھانا، ان واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ آج کا دور سائنس کا دور ہے، علم اور معلومات کا دور ہے اور یہی نہیں بل کہ بدلتے حالات میں اپنی بقا اور سلامتی کا سامان کرنا ہے۔ آج موجودہ دور میں الیگزینڈر وہی کہلائے جانے لائق ہے جو سائنس کے علم سے واقفیت اور سائنس کے علم میں فوقیت رکھتا ہے۔ جو اس سے کسی لمحے بھی پچھڑ گیا، مفتوح ہوگا۔
مسلم دنیا کے زوال، اسکے مسائل کی سچائی دیکھیں تو یہاں بھی آپ کو قدم قدم پر پسماندگی ہی ملے گی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ چند ایک مسلم ممالک امیر ہیں مگر مسلمان دنیا کے غریبوں میں سب سے زیادہ غریب ہیں۔ چند حقائق ذرا ملاحظہ ہوں کہ ستاون مسلم ممالک کی مجموعی گھریلو مصنوعات دو ٹریلین ڈالر سے کم ہیں۔ جب کہ محض امریکا گیارہ ٹریلین ڈالر کی مصوناعات اور سروسز کی پیداوار کرتا ہے۔ چین 5.7 ٹریلین ڈالر، جاپان جیسے چھوٹے ملک کی مجموعی گھریلو مصنوعات 3.5 ٹریلین ڈالر ہیں۔ اور اسی طرح جرمنی کی 2.1 ٹریلین ڈالر ہے۔ یہاں ان معروضات کا مقصد محض اور محض یہ ہے کہ ایسے بہت سے ملک ہیں جو اکیلے اتنی پیداوار دیتے ہیں کہ کل اسلامی مالک بھی ان کے برابر نہیں پہنچتے، تو مسلم دنیا اپنا محاسبہ کیوں نہیں کرتی، کیا یہ بھی ان کی پسماندگی کی ایک وجہ ہے؟ یاد رہے کہ ان ممالک کی زبردست پیداوار کی اصل وجہ سائنس، سائنسی آلات جدید مشینری اور ایسی دوسری ترقیاں ہیں۔ جب کہ تیل کے بلوں پر امیر بننے والے ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کو ملا کر دیکھیں تو ان کا جی ڈی پہی 430 بلین ڈالر ہی ہے۔ دوسری طرف ہالینڈ اور تھائی لینڈ جیسے چھوٹے ملکوں کی مجموعی گھریلو مصنوعات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ لیکن ان اسلامی ممالک کی مجموعی گھریلو مصنوعات میں شراکت صرف اور صرف پانچ فیصد ہی ہے۔ فکر کی بات یہ نہیں کہ یہ شرح کم ہے لیکن اب معاملہ اس نہج پر ہے کہ یہ شرح مسلسل کم ہو رہی ہے۔ یعنی ہمارا گراف اوپر آنے کے بجائے نیچے جا رہا ہے۔ دنیا کے 9 غریب ترین ملکوں میں چھ اسلامی ممالک ہیں۔ ستاون مسلم ممالک کی ایک ارب چالیس کروڑ آبادی کے لئے صرف چھ سو یونیورسٹیاں ہیں۔ یعنی فی اسلامی ملک دس جامعات، جب کہ صرف امریکا میں اس کی دس گنا جامعات قائم ہیں۔ آج مسلم ممالک میں جو تھوڑے بہت اعلیٰ تعلیمی ادارے ہیں، ان کا عالم یہ ہے کہ شنگھائی کی یونیورسٹی نے دنیا کی یونیورسٹیوں کی تعلیمی بنیاد پر جو حالیہ درجہ بندی کی، اس کے مطابق سب سے نمایاں پانچ سو جماعت میں کوئی ایک جامع اسلامی ملک کی نہیں۔ حد یہ نہیں، پندرہ عیسائی اکثریتی ملک ایسے ہیں جن کی شرح خواندگی سو فیصد ہے، لیکن کوئی ایک اسلامی ملک بھی ایسا نہیں جس کی شرح خواندگی سو فیصد ہو۔ پاکستان کی نامی گرامی یونیورسٹی قائد اعظم یونیورسٹی میں کل تین مساجد ہیں اور اب چوتھی زیر تعمیر ہے لیکن وہاں کتابوں کی کوئی دوکان نہیں۔ سعودی عرب کے سرکاری اسکولوں میں جو چند کتابیں پڑھائی جاتی ہیں اس سے یہ اندازہ لگانا ممکن نہیں کہ آیا یہ کتابیں سائنسی ہیں یا مذہبی۔ اب تک صرف دو مسلمانوں کو نوبل انعام ملا اور دونوں کے دونوں کی اعلیٰ تعلیم مغرب سے تھی۔ دوسری طرف یہودی ہیں کہ جن کی پوری دنیا میں ایک کروڑ چالیس لاکھ آبادی ہے، اب تک پندرہ نوبل انعام اپنے نام کر چکے ہیں۔ مسلمانوں میں آج بھی ایسی جماعتیں ہیں جو بچوں کو مسجد مسجد گھماتی ہیں اور اسکول و کالج کا حرج کراتی ہیں۔
ایک تلخ مگر سچی بات جو پچھلے دنوں میری آنکھوں سے گزری وہ یہ کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ضمیرالدین شاہ نے کہا مسلمان اپنے ابتر سوشل حالات کے خود مجرم ہیں۔ وہ اپنی آدھی آبادی یعنی خواتین کو گھروں میں غلام بنا کر رکھتے ہیں۔ اپنا سعودی عرب کا تجربہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہاں بھی کچھ ایسے ہی حالات ہیں۔ عورتوں کو گھروں میں قید رکھا جاتا ہے۔ اور بالعموم یہی حالات دیگر اسلامی ممالک کے ہیں۔ کئی دوسری وجوہات کے علاوہ مسلمانوں کی پسماندگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ انہوں نے کہا مسلمان ماہ رمضان کو چھٹی کے طور پر مناتے ہیں اور کوشش ہوتی ہے کوئی کام کاج نہ ہی کرنا پڑے۔ عام دنوں میں بھی وہ ڈھائی گھنٹے سے زیادہ کام نہیں کرتے۔ جمعہ کے دن تو سارا وقت محض رسمی نماز پر خرچ کر دیتے ہیں۔ تعلیم کو تو چھوڑ دیا ہے، محنت سے جی اچک گیا ہے۔ انہوں نے بھارت کے حوالے سے بھی ایک اہم بات کہی کہ اگرچہ ملک میں کوئی مذہبی تفریق نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود مسلمان موقع نہ ملنے کا رونا روتے ہیں۔ اور قارئین مذہب اسلام یا کوئی دوسرا مذہب ہمارے سماجی امور کی انجام دہی میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ روزہ، نماز، حج یہ سب روز مرہ کی چیزیں ہیں، یہ کوئی بہانہ ہے اور نہ ہی کوئی وجہ کہ ہم اس کا رونا روئیں۔