• Breaking News

    ایسے امریکی صدر سے خدا کی پناہ۔۔۔



    مجھے معلوم نہیں، آیا آپ کو یہ بات یاد ہے کہ نہیں۔ جب ڈونلڈ ٹرمپ نے صاف صاف کہہ دیا تھا۔ بلکہ وعدے کے ساتھ کہا تھا، وہ ممالک جو اسرائیل کا دارلحکومت بیت المقدس کے فیصلے کے خلاف ہیں اور اقوام متحدہ میں برخلاف امریکہ ووٹ دے چکے ہیں، انہیں اس کے انجام جلد پتہ لگ جائے گا۔ بلاشبہ وہ اس کی سزا بھی پائیں گے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ 71سالہ ڈونلڈ ٹرمپ کو 25 سے زائد امریکن ماہر نفسیات دماغی طور پر پاگل قرار دے چکے ہیں۔ لیکن عش عش کر اٹھیں اس دیوانے کی نفرت کرنے کی حس پرجو زبردست کام کرتی ہے۔ ادھر پاکستان امریکہ کے خلاف اقوام متحدہ میں قرارداد کا کُو سپانسر بنا اور اُِدھر ٹرمپ نے ذارا بھر دیر کیے بغیر پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف لڑنے کی امداد روک دی۔یعنی اگر امریکہ 15 سال سے پاگلوں کی طرح 33 بلین ڈالر پاکستان پر نچھاور کرتا رہا، آخر اس کا کوئی جواز تو ہو گا؟ دوسری طرف ٹرمپ کا ہم پر یہ الزام ہے کہ پاکستان نے ہمارے ساتھ جھوٹ بولا اور دھوکہ کیا۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ تک کہہ دیا کہ پاکستان نے اس امداد کے سہارے دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے بنائے اوردہشت گردوں کی معاونت کی۔ لیکن اب نو مور! یہاں ٹرمپ نے نہ صرف زبان درازی کے اپنے سابقہ ریکارڈ توڑے بلکہ عملاً پاکستان کی سکیورٹی معاونت معطل کر دی اور پاکستان کا نام سپیشل واچ لسٹ میں شامل کرنے کے اشارے دیئے۔

    مجھے یہ بھی بہت اچھی طرح یاد ہے، غالبا ابھی اس بات کو ایک سال ہی ہوا ہے۔ جب اسی امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے پاکستان کے اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو فون کیا اور تعریفوں کے پل باندھے تھے۔ نواز شریف کو سراہا تھا۔ پاکستانیو ں کی تعریف و توصیف کی تھی۔ انہیں ذہین ترین قرار دیا۔ یعنی ٹرمپ اس حد تک متاثر ہوئے تھے کہ کیا بتاؤں۔ حتیٰ کہ پاکستان کے حق میں کوئی بھی کردار ادا کرنے کے لئے تیار تھے، جیسے بس نواز شریف کے اشارے کا منتظر ہو۔ اور بقایاجات کے حل کی بھی یقین دہانی کروائی تھی۔ یقیناًقارئین کو ایک سال پہلے کی باتوں اور آ ج کے ٹرمپ کے موقف پر شدید حیرت ہو رہی ہو گی۔ لیکن ان تمام باتوں سے پہلے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیئے کہ ٹرمپ کو اس کے اپنے ملک میں بہت ہزیمت اٹھانا پڑی ہے اور مسلسل پڑ رہی ہے۔ اس کا میڈیا اس کے خلاف ہے۔ ڈیلی نیو یارک ٹائمز کا کسی بھی دن کا شمارہ اٹھا کہ دیکھ لیں آپ کو ہر روز کم از کم دو سے تین کالم اور اداریے اس کے خلاف اور اس کے پالیسیوں کی مزمت میں ملیں گے۔ اس کی کابینہ کے لوگ اس کے پیچھے اس پر ہنستے ہیں۔ آپس میں بات کرتے ہوئے اسے اس کے مختلف ناموں سے پکارتے ہیں۔ امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ ریکس ٹیلرسن اسے ذہنی طور پر پسماندہ اور طفل مزاج کہتے ہیں۔ اس کا سکیورٹی ایڈوائزر اسے ناامید اور احمق کہتا ہے۔ اس کا چیف اکنامک ایڈوازر گرے کوہن بھی اسے کچھ ایسے ہی القابات سے نوازتا ہے۔ یعنی کس کس کا نام لیا جائے۔ اس کے بعد تو کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ اس کی اپنی بیٹی ایوانکا ٹرمپ اپنے باپ کے عجیب قسم کے ہیئر سٹائل کا اپنے دوستوں میں مذاق اڑاتی ہے کہ میرے ابا کی کھوپڑی بلکل بالوں سے خالی ہے جو اس نے سرجری کے ذریعے ڈھانپی ہوئی ہے۔ 
    سب سے دلچسپ رائے سابقہ وائٹ ہاؤس کے چیف سٹریٹیجک سٹیو بینون ٹرمپ کے بارے میں رکھتے ہیں۔ جو کہتے ہیں کہ ٹرمپ اپنا ذہنی توازن کھو چکا ہے اور قابل مواخذہ ہے۔ عین ممکن ہے وہ اپنی اس ذہنی حالت پر استعفیٰ دے دے۔ دوسری طرف مائیکل وولف اپنی تازہ تصنیف فائر اینڈ فیوری میں لکھتے ہیں صدرِ امریکہ اپنے پرانے دوستوں کو بھی نہیں پہچان پا رہے۔ ہر کوئی اس کی اس ابتر حالت سے پریشان ہے۔ وہ ایک بات کو کئی مرتبہ دہراتے ہیں اور انہیں علم نہیں ہوتا کہ وہ یہی بات اس سے پہلے بھی کر چکے ہیں۔ پہلے تو وہ آدھے گھنٹہ پہلے کی گئی بات کو دہراتے تھے لیکن اب محض دس منٹ پرانی بات بھی بھول جاتے ہیں اور وہی بات بار بار دہراتے ہیں۔ مائیکل وولف کہتے ہیں ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں کام کرنے والوں کا کیسے جوس نکالا یہ وہ ہی بہتر جانتے ہیں۔ یاد رہے ٹرمپ کی الیکشن میں کامیابی کے بعد مائیکل وولف نے ٹرمپ تک رسائی لے کر اسے کہا تھا کہ وہ وائٹ ہاؤس میں گزرے اس کے پہلے سال پر کتاب لکھنا چاہتا ہے۔ اس نے ان اٹھارہ ماہ میں اس سے مختلف گفتگو کے سیشن کئے اور اس کے سٹاف سے بھی انٹرویوز کئے۔ وہ لکھتے ہیں؛ ٹرمپ خود کو ویسٹ ونگ کی نمائندگی کے لئے بہترین انتخاب سمجھتے ہیں اور وہ نمائندگی کرنا بھی چاہتے ہیں۔ اس نے کہا کہ ٹرمپ سے متعلق دو سو سے زائد انٹرویوز یا گفتگو کے سیشن ہوئے۔ جن میں وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ کس قدر اس کی ایدمنسٹریشن میں تجربے کا فقدان اور سیاسی اقدار کی کمی ہے۔ اور ٹرمپ کو کسی چیز کا لحاظ تک نہیں۔
    قارئین ڈونلڈٹرمپ شام ساڑھے چھ بجے اپنے بیڈ روم چلے جاتے ہیں، کھانے میں چیز برگر کھاتے ہیں اور ہمہ وقت تین ٹی وی اپنے کمرے میں کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔ جب سے اس نے اپنا بیڈ روم لاک کرنے کا اصرار کیا تب سے اس کے کمرے کی چوبیس گھنٹے سکیورٹی سرولنس ہوتی ہے۔ ٹرمپ اس بات سے خائف ہے کہ کوئی اسے زہر نہ دے دے۔ حتی کہ اس نے سخت منع کیا ہے کہ اس کے دانتوں کے برش کو بھی کوئی نہ چھوئے۔ یقین جانیئے ایسے امریکی صدر کے ہوتے ہوئے دل سے یہ دعا نکلتی ہے کہ اللہ پاک اس کے فتنے اورمزموم عزائم سے پاکستان کو محفوظ رکھے۔ اورآ پ کو علم ہے اللہ کے قہر و جبر کے آگے کسی کی کوئی مجال نہیں۔

    No comments