• Breaking News

    تجلیاتِ رسالتؐ، ایک با سعادت تقریب کی روئیداد


    یہ 15اپریل کی ساعتوں میں لپٹی موسم گرما کی دہلیز پر دستک دیتی ہوئی ایک شام تھی، مردم خیز علاقہ گجرات کا ایک قصبہ ہماری منزل تھا، ہم راولپنڈی سے جی ٹی روڈ کی گردوباد کا مزہ لیتے ہوئے ڈنگہ پہنچے تھے، پرانے زمانے میں اس قصبے کا نام "دین گاہ" تھا، انگریز سرکار کے اقتدار کا سکہ چلتا تھا، اکثر و بیشتر انتظامی افسر فورٹ ولیم کالج کولکتہ سے ایلیمنٹری سطح کی اُردو سیکھ کر انتطامی عہدوں پر فائز ہوتے تھے، انگریزی کے لحن میں غلطاں شکستہ اُردو بولنا ان انگریز افسران کی مجبوری تھی، ایسے ہی کسی ستم ظریف انگریز نے "دین گاہ" کو اپنی شکستہ اُردو کے لحن میں ڈنگہ کہہ دیا، جب سے اس قصبے کا نام ڈنگہ ہی پڑ گیا۔ اس قصبے کی شرح خواندگی ضلع گجرات میں مثالی رہی ہے، یہاں تعلیمی اداروں کی بہتات ہے، بچوں کی ذہنی و فکری آبیاری کے لئے ایک سے ایک سکول و کالج موجود ہے۔ یہاں ہونہار اور مثالی طلبہ بھی ہیں اور قدآور خورشید مثال اساتذہ بھی۔ انہی عظیم اساتذہ میں سے ایک نابغہ روزگار استاد کا نام پروفیسر تفاخر محمود گوندل ہے، جو شاعر ہیں، ادیب، محقق اور نقاد بھی۔ انکی ایک علمی خصوصیت سیرت نگاری کے حوالے سے ہے، کچھ عرصہ پہلے ان کا سفر نامہ حجاز جلوہ ہائے جمال کے نام سے چھپ کر منظرِ عام پر آیا تو اہلِ دل و نگاہ نے اسے سرآنکھوں پر لیا، یہ سفر نامہ انکے فن اور فکر کا روحانی اور ملکوتی پرتو تھا، عشقِ رسول ﷺ کی روشنائی میں ڈوبے ہوئے قلم سے انہوں نے "جلوہ ہائے جمال" کی جو جوت جگائی وہ خاصے کی چیز تھی، ملک کے طول و عرض میں یہ کتاب ذوق و شوق کے ساتھ پڑھی گئی، اہلِ علم و ہنر نے اس کتاب پر جاندار تبصرے کئیے اور عشاق نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے، یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔ اور آج ہم ان کی سیرت نگاری کی شاہکار تجلیاتِ رسالت ﷺ کی تقریب پذیرائی کے لئے ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی کی معیت میں اس با توفیق اور باسعادت تقریب میں شرکت کیلئے راولپنڈی سے قصبہ ڈنگہ کے منڈی بہاؤالدین روڈ پر واقعہ ایراث ہاؤس آف نالج میں قدم رنجہ ہوئے تھے، پنڈال میں ضلع گجرات اور قصبہ ڈنگہ کے تمام قد آور ادبی و تعلیمی حلقوں کی شخصیات موجود تھیں۔ تقریب کی صدارت ممتاز محقق، دانشور اور استاد ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی نے کی جبکہ مہمانِ گرامی میں راقم الحروف سمیت چوہدری اعجاز احمد، چوہدری محمد اختر، چوہدری امتیاز احمد، پروفیسر شیخ عبدالرشید، لیاقت علی گڈ گور ( معروف پنجابی شاعر) تھے۔ تقریب کے پہلے مقرر پروفیسر شیخ عبدالرشید تھے، انہوں نے زیرِ نظر کتاب پر پُر مغز اور خوبصورت مقالہ پڑھا، ان کا کہنا تھا کہ تفاخر محمود گوندل کی سیرت نگاری روایت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور اس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ادبی سیرت نگاری کے شاہکاروں میں شمار ہوتی ہے، جس کا اسلوب اور اندازِ بیان آفاقی اور الہامی ہے، تفاخر محمود گوندل پر یہ اسلوب اور اندازِ بیان غیب سے ایک عطا کی صورت نازل ہوا ہے، اس لئے سیرت نگاری کے ادبی شاہ پاروں میں اس کتاب کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ تقریب کے مہمانِ گرامی لیاقت گڈگور نے تجلیاتِ رسالت ﷺ کو منظوم خراجِِ عقیدت پیش کیا، ان کی نظم سُن کر اہلِ محفل جھوم اُٹھے اور چہار سو سبحان اللہ کی آوازیں بلند ہوتی رہیں، لیاقت گڈ گور پنجابی کے قد آور اور ایک منفرد شاعر ہیں، جنکی ملک گیر شہرت اس علاقہ کے ادبی حلقے کا تفاخر ہے۔ راقم الحروف نے بھی کتاب پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تفاخر محمود گوندل ایک باسعادت لکھاری ہیں، جنہوں نے سفر نامہ حجاز کے بعد سیرت نگاری پر خوبصورت کتاب دیکر اپنی خدا داد صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے، انکی تحریر کا حرف و بیاں اچھوتا اور دل موح لینے والا ہے، اللہ کریم ان کی اس مساعی میں برکت ڈالے۔ مقامی صحافی، لکھاری اور نقاد الطاف طاہر نے تقریب میں اپنی سحر انگیز تقریر سے سماں باندھ دیا، جن کے پر اثر لہجے پر تبصرہ کرتے ہوئے صاحبِ صدر نے مولانا ظفر علی خان کا یہ مصرعہ نذر کیا، نطق کو سو ناز ہیں تیرے لبِ حجاز پر۔ تقریب سے چوہدری محمد اختر، چوہدری اعجاز احمد اور چوہدری امتیاز احمد نے بھی خطاب کیا انہوں نے تفاخر محمود گوندل کی تجلیاتِ رسالت ﷺ شائع ہونے پر مبارک باد پیش کی اور کہا کہ وہ قصبہ ڈنگہ اور ضلع گجرات ہی کے نہیں بلکہ وہ پورے پاکستان کی معروف ادبی شخصیت ہیں،صاحب صدر ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ تفاخر محمود گوندل غنیمت کنجاہی اور شریف کنجاہی کی سرزمین کے سپوت ہیں، انکا تعلق اس خطے کے لکھاریوں کی اس کہکشاں کے ساتھ ہے کہ جو ادبی اور روحانی کمالات میں اپنا نام پیدا کر چکے ہیں، تجلیاتِ رسالت ﷺ ادبی سیرت نگاری کا وہ شاہکار ہے کہ جس میں نثری کمالات بھی ہیں اور شعری آہنگ بھی بین بین موجود ہے، اس حوالے سے اسکا طرزِ تحریر اچھوتا اور منفرد ہے، تفاخر محمود گوندل نے بہت مشکل اور نازک کام کیا ہے جو روحانیت میں پُل صراط پر چلنے کے مترادف ہے، علامہ اقبال نے کہا تھا، نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید اینجا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں بہت سے اشعار پڑھے، جن میں سے دو شعر یہ بھی تھے: ؂
    احوالِ کفرو دین رقم کر رہا ہوں میں
    پھر شرحِ داستانِ حرم کر رہا ہوں میں
    یورپ کے فلسفی میرے قدموں8 کی دھول ہیں
    سر کو درِ رسول ؐ پہ خم کر رہا ہوں میں
    انہوں نے متذکرہ بالا اشعار اس وارُفتگی کے ساتھ پڑھے کہ اہلِ محفل پر وجد کی کیفیت طاری ہو گئی، ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی کا کہنا تھا کہ یورپ اہلِ اسلام کی صرف اسی ایک جہت سے ڈرتا ہے کہ جسکے سر چشمے عشقِ رسول ﷺ سے پھوٹ کر منظرِ عام پر آتے ہیں۔ آخر میں صاحبِ کتاب تفاخر محمود گوندل نے اظہار، خیال کرتے ہوئے کہا کہ وہ قلم کے اس سفر میں شعر و ادب کی راہ سے تخلیقی عمل میں دخیل ہوئے اور اب سفر نامہ حجاز کے بعد سیرتِ رسول ﷺ پر کتاب شائع کرنے سے اس منزل پر پہنچے ہیں کہ جو حُبِ رسول ﷺ کی منزل ہے، اب انکی خواہش ہے کہ وہ اسی دامن سے لپٹے رہیں اور ان کا مطمح نظر رسول ﷺ کی ستائش و تعریف ہو، خدا کرے بارگاہِ ایذدی میں انکی یہ تمنا قبول ہو، انہوں نے تقریب کے تمام مقررین اور شرکاء کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ 

    No comments