آؤ چلیں، چومیں ان کے سوکھے ہونٹوں کو
آج اگر محسن نقوی ہم میں موجود ہوتے اور سانحہ اے پی ایس کے موقع پر انسان دشمن عناصر کی اس کاروائی کو دیکھتے تو ان کے جذبات انہیں بہت کچھ کہنے پر مجبور کر دیتے۔
قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ
اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ
انہوں نے یہ شعر بھی شاید آج کے حالات کو دیکھتے ہوئے ہی کہا تھا، مجھے تو یقین بھی نہیں آتا کہ ان قاتلوں کے سینے میں دل نام کی چیز بھی دھڑکتی ہے یا نہیں؟ مگر ہمیں جس قاتل سے واسطہ پڑا ہے، اسے قتل چھپانے کی کوئی جگہ درکار نہیں، وہ تو خود بھی صرف تب تک ہی چھپتا ہے، جب تک موت کی دہلیز پر آخری قدم نہ رکھ دے اور شکار کے ساتھ خود بھی شکار بن جائے۔
آج 16دسمبر ہے، اس دن کو ہم دو برس قبل سقوط ڈھاکہ کے طور پر یاد کیا کرتے تھے۔ لیکن گزشتہ دو برس قبل اس دن ایسے گہنے زخم دشمن نے ہمیں دئیے کہ ہم سولہ دسمبر کو سقوط ڈھاکہ کے علاوہ سانحہ اے پی ایس کے حوالے سے یاد رکھنے لگے ہیں۔آج کے روز دو سال قبل انسانیت کے دشمنوں نے قلم، کتابوں اور کاپیوں سے لیس بستہ رکھنے والے طالب علموں کو گولیوں سے چھلنی کیا تھا۔ آج ہم اس الم ناک سانحے کی تیسری برسی منا رہے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں جیسے قلم کے مجاہدوں نے تعلیم کے لئے بے مثال قربانیاں دیں، ان پر فخر تو کریں مگر ان کے والدین کے صبر و استقلال کو بھی سراہیں، جنہوں نے دل پر پتھر رکھ کر اپنی آنکھوں کے سامنے جنازے اٹھتے دیکھے۔ سانحہ اے پی ایس پشاور میں ہوا۔ جہاں کے باسی ایموبلینس یا پولیس کی گاڑی کا سائرن سنتے ہیں تو ان کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں۔ لپک کر ٹی وی اسکرین آن کرتے ہیں تو یکے بعد دیگرے افراتفری کے مناظر آنکھوں میں کرچیاں بھرتے جاتے ہیں۔ اہل پشاور نے ایسے مناظر بار ہا دیکھے، شاید وہ عادی بھی ہو گئے ہوں۔ لیکن کیا ہے کہ وہ بھی گوشت پوست کے انسان ہیں، ان کے سینے میں بھی دل دھڑکتا ہے۔ جس میں نرم جذبات کا خانہ کچھ ذیادہ ہی بڑا ہے۔ البتہ شدت پسندوں کے سینے میں کس قسم کا دل ہے، جو محض اور محض نفرت کا ہی مسکن بنا رہتا ہے کہ:
پتھروں سے جڑے ہوئے شیشے
پتھروں سے بھی سخت ہو گئے
پشوریوں کے حوصلے اس کے باوجود پہاڑ کی طرح بلند ہیں۔ حالاں کہ ان کی ایک پوری نسل لاشیں اٹھا اٹھا کر جوان ہوئی ہے۔ سولہ دسمبر کو پشاور ایک ایسی قیامت سے گزرا جس کی نظیر تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ قلم اور کتاب سے محبت کرنے والے معصوم اور نہتے بچوں کے ساتھ پیش آیا، ذی روح انسان اشک بہائے نہیں رہ سکتا۔ لاشوں کی سیڑھیاں چڑھتے جنت کے سفر پر گامزن کتنے سفاک ہوتے ہیں، جن کے ہاں نہ بوڑھے کی عزت، عورت کا حیا، بچے پر رحم اور حتٰی کہ انسان کا وقار بھی نہیں۔ ہائے، کیا لکھیں اور کیا کہیں۔ سوائے اس کے کہ:
ماں مجھے بھی صورت موسیٰ بہادے نہر میں
قتل طلفاں کی منادی ہو چکی ہے شہر میں
وہ ہمارے بھی بچے تھے، جیسے ان کے والدین و ورثاء کی آنکھوں میں اشک ہیں، اسی طرح ہم سب پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ اسی طرح ہم بھی ان کی تکلیف و مصیبت سے غافل نہیں رہے۔ ہم ان کے قیمتی اثاثے کے ضیاع کا نعم البدل نہیں دے سکتے، لیکن ہماری اخلاقی معاونت ان سب کے ساتھ ہے۔ جہاں جہاں ہماری ضرورت محسوس ہوئی، دن دیکھیں گے نہ رات ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ ہمیں اپنے بچوں کی شہادتوں پر بڑا فخر ہے اور جب تک ہمارے بچوں کا آخری قاتل اپنے انجام کو نہیں پہنچ جاتا ہمیں تسکین نہیں ہو سکتی۔ ان بد بختوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے انجام تک پہنچتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ آئیں ہم تجدید عہد وفاکریں، اپنے کل سے، اپنے مستقبل سے، آئندہ نسل سے کہ ان کی جانوں پر ظلم نہ ہونے دیں گے۔
آؤ چلیں، چومیں ان کے سوکھے ہونٹوں کو
تھامے ان کے ننھے منے ہاتھوں کو
پھر سے ان کی گلیوں کو اک آس ملے
پھر سے ان کی آنکھوں میں خوشیاں چمکیں
کہ دہشت کے ہر کارے خاک میں مل جائیں
دھوپ ڈھلے غم کی، چھاؤں کے پھول کھلیں
Excellent,vBohat axhi tehreer hai iss ne dobara uss sanhay ki yaad taza kerdi magar afsoos hmari koi tasalli koi dilasa on waldain ki takleef ko kam nahi ker sakta jinhon ne apnay masoom baxho ko kho diya.
ReplyDeleteThank you madam for your precious comment and feedback ... Actually this incident has left its footprints on our mind.... But this should be avoided in future and those innocent sacrifices will never be forgotten.
Delete