• Breaking News

    جانے والے امجد صابری کبھی نہیں آتے

    ماہِ مقدس جو رحمتوں، برکتوں، مغفرتوں اور فضیلتوں کا مہینہ ہے۔ عبادات کے لئے مخصوص اس ماہِ مبارک میں مسلمان پورا مہینہ فرحتیں اور راحتیں تلاش کرتے رہتیں ہیں۔ پاکستان کا شہر کراچی جو کسی بھی خوشی کے دن، مہینہ میں بری خبر کا انتظار کرواتا رہتا ہے، یہاں صدمہ در صدمہ معمولات کا حصہ ہے۔ چند روز قبل چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے بیٹے کو اغواء کیا گیا، سارا شہر ابھی اس صدمے سے باہر نکلا نہیں تھا۔ ایک اور ہولناک خبر ٹی وی چینلز پر بریکنگ نیوز کی صورت نمودار ہوئی۔ جس نے ہر ہر فرد خواہ وہ کسی بھی شعبے سے ہو، کا دل کرچی کرچی کر دیا۔ خبر: مقبول و معروف قوال امجد صابری کو قتل کر دیا گیا۔ "بھر دو جھولی میری یا محمد ﷺ" کے عہدِ صابری کا سفر تمام ہوا۔ امجد صابری جس کا شمار عصرِ حاضر کے اہم قالوں میں ہوتا تھا۔ جو 23 دسمبر 1976ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ زندگی نے امجد صابری سے فقط چالیس سال وفا کی، ان کا تعلق بڑے خانوادے سے تھا۔ وہ صابری برادران کے فن کا تسلسل تھے۔ اپنے والد محترم غلام فرید صابری اور چچا مقبول صابری سے فن امجد صابری کو ورثے میں ملا۔ انکی تربیت کن خطوط پر استوار تھی اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یعنی انہیں اپنے فن میں یکتا کلا کاروں کی رہنمائی و توجہ حاصل تھی۔ بڑوں کی تربیت کا نتیجہ کہ انہوں نے نہ صرف فنِ والی کو اپنایا، بلکہ اپنا سب کچھ تج دیا۔ 1988ء میں پہلی بار جب صابری برادران کی مشہور قوالی "تاجدارِ حرم" اس انداز میں پیش کی کہ سامعین جھوم اُٹھے۔ ان کی شہرت دن بہ دن عروج پاتی گئی۔ اس عہد ساز شخصیت نے اس فن سے جڑے عقیدت مندوں کے جذبے کو کبھی کم زور نہیں ہونے دیا۔ وہ اس کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے تھے۔ کتنے دکھ اور افسوس کی بات کہ میں بار بار "غائب" کا صیغہ استعمال کئے جا رہا ہوں۔ وہ ظاہری حجاب کے پیچھے زندو جاوداں ہیں۔ کیوں کہ شہید کب مرتا ہے؟ بس ایک حجاب اُوڑھ لیتا ہے۔ مگر ہم اسے حجاب میں کب دیکھنا چاہتے تھے۔ ہم اسے لائیو "بھر دو جھولی میری یا محمد ﷺ" کی صدائیں دیتا دیکھنا چاہتے تھے۔ مگر بہت دیر ہوچکی اب وہ نہ لوٹے گا۔۔۔ ؂
    بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
    اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
    ظالم یہ کب جانتے تھے کہ : ؂
    تم شب کی سیاہی میں مجھے قتل کرو گے
    میں صبح کی اخبار کی سرخی میں ملوں گا
    احمد فراز نے بھی ایسی گونجتی آوازوں، معاشرے کی رونق، فن اور فن کاروں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اپنے خیالات یوں بیان کئیے تھے۔ 

    مت قتل کرو آوازوں کو ۔۔۔ تم اپنے عقیدے کے نیزے ۔۔۔ ہر دل میں اتارے جاتے ہو ۔۔۔ ہم لوگ محبت والے ہیں ۔۔۔ تم خنجر کیوں لہراتے ہو ۔۔۔ اس شہر میں نغمے بہنے دو ۔۔۔ بستی میں ہمیں بھی رہنے دو ۔۔۔ ہم پالن ہار ہیں پھولوں کے ۔۔۔ ہم خوش بو کے رکھوالے ہیں ۔۔۔ تم کس کا لہو پینے آئے ہو ۔۔۔ ہم پیار سکھانے والے ہیں ۔۔۔ اس شہر میں پھر کیا دیکھو گے۔۔۔ جب حرف یہاں مر جائے گا ۔۔۔ جب تیغ پہ لے کٹ جائے گی ۔۔۔ جب شعر سفر کر جائے گا ۔۔۔ جب قتل ہوا سر سازوں کا ۔۔۔ جب کال پڑا آوازوں کا ۔۔۔ جب شہر کھنڈر بن جائے گا ۔۔۔ پھر کس پہ سنگ اُٹھاؤ گے ۔۔۔ اپنے چہرے آئینوں میں ۔۔۔ جب دیکھو گے ڈر جاؤ گے 
    امجد صابری سیدھے سادے، خوش مزاج انسان تھے۔ ان کا قتل افسوس ناک مگر اس کے ساتھ ہی کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ آخر ایک بے ضرر سے کلا کار کا قتل کیوں؟ کیا کوئی سببِ دشمنی تھا؟ یا پھر کوئی اور معاملہ ہے؟ تاہم کچھ سوچ بچار ہمیں اس نتیجے پر لے جاتا ہے کہ کراچی کے مجموعی حالات و واقعات کی تصویر خاصی ہولناک ہے۔ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں جب جرم اور مجرم کا راج تھا اور لاقانونیت اپنے عروج پر۔ مگر سانحہ پشاور کے بعد آپریشن ضرب عضب شروع ہوا تو ریاست نے کراچی بھر میں آپریشن کا فیصہ کیا۔ جو انتہائی سوچ بچار کے ساتھ آغاز اور انجام پاتا گیا۔ جہاں ریاستی اداروں نے ایسی حکمتِ عملی وضع کی کہ ماضی کے آپریشنز کے برعکس اس نے شہریوں میں براہ راست تصادم کی صورتحال پیدا نہیں ہونے دی۔ دوسری جانب رینجرز اور فوج کے اعلیٰ حکام میڈیا کے ذریعے عوام سے رابطے میں رہے، جس سے یقین اور اعتماد کی فضا پیدا ہوئی۔ اس دوران بلاتفریق کاروائی میں شرپسندنوں، مذہبی انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو گرفت میں لیا گیا۔ اس عمل میں اگرچہ کئی رکاوٹیں اور دشواریاں حائل مگر سیکورٹی فورسز نے کمال مہارت اور تدبیر سے سدِ باب کیا۔ شاید امن دشمنوں کو کراچی کا امن گوارا نہیں تھا۔ اسی لئے ایسے واقعات رو نما ہوتے رہے ہیں۔ جس سے کراچی آپریشن کی حیثیت کو مشکوک و عملاً فیل کیا جاسکے۔ اس قسم کے چند واقعات کی قلعی تو اگرچہ کھل جائیگی، تاہم یہ سلسہ ابھی تھما نہیں ہے۔ چیف جسٹس کے صاحب زادے کا اغوا اور اس سے اگلے روز معروف قوال امجد صابری کا بے دردی سے دن دیہاڑے سفاک قتل، یہ دو ہائی پروفائل کیسز دال میں کچھ کالا ہے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے فوری کاروائی کا مطالبہ کیا، مگریہ کوئی اچھنبے کی بات یا خوش خبری نہیں ہے۔ عموماً دہشت گردی کے کسی بھی واقعے کے بعد ایسے بیانات دئیے جاتے ہیں۔ دعوے اور وعدے مگر نتیجہ صفر۔۔۔ امجد صابری کوئی عام شہری نہیں تھا، اگر یہ معاملہ دشمنی کا ہے اور ان کا تعاقب کیا جا رہا تھا، جس کا انہوں نے متعلقہ اداروں کو بتایا تو پھر صورتِ حالات کافی گھمبیر ہیں۔ امجد صابری ایک جانے مانے معروف کلا کار تھے، جن کے پرستار بیرون ملک بھی کثرت میں موجود ہیں۔ اگر دھمکیاں مل رہی تھیں تو انہیں سیکورٹی کیوں مہیا نہیں کی گئی؟ اب اس قتل کے بعد اس بات کو بھی جانچنا چاہئیے کہ انہیں سیکورٹی کی عدم فراہمی میں کہاں کہاں غفلت برتی گئی اور کیا رکاوٹ تھی۔ 
    صوفیا کی سرزمین پر امن و آشتی، محبت اور پیار کا پیغام دیتے سچل سر مست ؒ اور شاہ عبد الطیف بھٹائیؒ کی دھرتی پر صابری خاندان کے سپوت کو دہشت گردی کے عفریت اور نفرت کے بارود نے ابدی نیند سلا دیا۔ بلاشبہ صابری خاندان پاکستان اور بیرونِ ملک فن قوالی میں شہرت رکھتا تھا۔ غلام فرید صابری کے سپوت امجد صابری نے اسی فن میں کمال حاصل کیا، اپنی شناخت بناتے ہوئے اپنے خانوادے کا نام بھی روشن و منور کیا۔ قوالی کے میدان میں ان کی آواز اور انداز نے بیرونِ ملک بھی ان کے چاہنے والوں میں اضافہ کیا۔ امجد صابری کی زندگی کا قیمتی لمحہ آج ہمارے سامنے ہے، مگر امجد صابری کا خیال بھی ایک دکھ بھرا احساس ہمارے دل میں جگا دیتا ہے۔ سکندر علی وجد کا ایک شعر "امجد صابری" کے اضافے کے ساتھ کہ: ؂
    جانے والے 'امجد صابری' کبھی نہیں آتے