• Breaking News

    دولت کے خزانے اور پوشیدہ جرم کا کھوج

    حرف امرت
    قبل اس کے موضوع کی طرف بڑھوں، اپنے قارئین سے معذرت چاہتا ہوں کہ چھٹی کی درخواست دیئے بغیر اڑھائی تین ماہ ناغے کرتا رہا، یقیناً ایسا نجی مصروفیات بڑھ جانے کے سبب ہوا، بار دیگر معذرت خواہ ہوں۔ اب چلتے ہیں موضوع کی جانب، ان دنوں کا خاص موضوع پانامہ کیس کا فیصلہ ہے۔ چونکہ فیصلہ اب آ چکا ہے لہٰذا قانونی طور پر بھی اس فیصلے کے حسن و قبح پر بات کی جا سکتی ہے۔ ہم فیصلے کی دستاویز پڑھ لینے کے بعد محض یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ وزیراعظم اسلامی جمہوریہ کو اس فیصلے کے بعد جو تھوڑا بہت ریلیف ملا ہے، یہ دراصل عبوری ریلیف ہی ہو سکتا ہے۔ پانامہ لیکس کا بڑا شور مچا، ایک دوسرے پر گولہ باری کی گئی، قطری خطوط منظر عام پر آئے تو انہوں نے تہلکہ مچا دیا،ان خطوط نے ایک فریق کے مقدمے میں جان ڈال دی تو دوسرے کی جان نکال دی۔ ان دنوں یہ فریقین تو آپس میں الجھے ہی تھے لیکن عوام بھی پر سکون نہ تھے، ان کی جان سولی پر اٹکی ہوئی تھی۔ فیصلے کے وہ نتیجہ خیز لمحات آ ہی نہیں رہے تھے، فیصلہ محفوظ کیا گیا اور انتظار کی طویل گھڑیوں کے بعد فیصلہ سامنے آیا۔ یہاں حیرت حکم رانوں کے جتھوں پر ہوتی ہے، جو ایک دوسرے پر بیانات کستے رہے، منہ میٹھے کرائے گئے، ایسے کہ جیسے عید کا سماں ہو، سب نے ایک دوسرے کو مبارک بادیں بھی دیں۔ سوشل میڈیا پر دونوں فریقین کے حامیوں نے اپنے اپنے مطلب کی چیزیں نکال کر حسب توفیق جشن منایا۔ یہاں شیخ رشید کے بقول ایک طالب علم کے دو امتحانات میں ایف گریڈ اور تین میں ڈی گریڈ ملنے کے باوجود بچے کی ناکامی کو بچے کی فرسٹ دویژن میں کامیابی کے طور پر پیش کیا گیا۔
    پانامہ کیس فیصلے کے بعد جو جے آئی ٹی بنائی گئی اس پر اعتراض میں بھی خاصا وزن ہے۔ یعنی سپریم کورٹ سماعت کے دوران بشمول نیب اور ایف آئی اے حکومت کے ماتحت تمام تحقیقاتی اداروں پر عدم اعتماد کا اظہارکر چکی ہے۔ اس پس منظر میں حکومت کے ماتحت عہدیداروں سے یہ توقع رکھنا بھی محال ہے کہ وہ وزیر اعظم اور ان کے بچوں کے خلاف بغیر کسی دباؤ شفاف تحقیقات کر سکتے ہیں۔ اصولاً تو ایسا ہوتا ہے کہ اگر کسی سرکاری یا غیر سرکاری عہدیدار کے خلاف کوئی شکایت ہو تو اس کی تحقیق اس سے درجے میں بڑے عہدیدار سے کروائی جاتی ہے۔ لہٰذا محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعظم پاکستان کے خلاف تحقیقات کرنا جے آئی ٹی کے بس کی بات نہیں۔ سپریم کورٹ کی شکل میں جے آئی ٹی پر مانیٹر تو اگرچہ لگایا گیا ہے، تاہم یہ بات پھر بھی مشکوک رہے گی کہ سپریم کورٹ جے آئی ٹی کو اپنی مرضی سے چلا سکتی ہے یا کہ نہیں؟ یا یہ کہ اپنی مرضی کے نتائج برآمد کیئے جا سکتے ہیں یا نہیں؟ لہٰذا بنچ کے اکثریتی فیصلے کی طرح لامحالہ اکثریتی رپورٹ بھی چیف ایگزیکٹو آف پاکستان کے لئے مزید آسانیاں پیدا کر دے اور یہی وہ نکتہ ہے جس کی بنیاد پر اپوزیشن کی چار بڑی جماعتیں بجائے جے آئی ٹی، جوڈیشل کمیشن چاہ رہی ہیں۔ جس میں وزیراعظم مستعفیٰ ہوں تا کہ اپنے خلاف انکوائری پر اثر انداز نہ ہو سکیں۔ لیگی وزراء بیانات در بیانات دیتے آ رہے ہیں کہ ن لیگ عدالتوں سے سرخ رو ہوئی، انہیں یہ ادراک کیوں نہیں کہ دراصل یہ معاملہ ن لیگ کا نہیں بلکہ وزیراعظم اور ان کے خاندان کی ذاتی دولت کے بارے تحفظات کا ہے۔ 
    عدالتی تاریخ کا شاید پہلا فیصلہ ہے جو شروع ہی اختلافی نوٹ سے ہوتا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فیصلے کے الفاظ کی ابتداء MarioPuzoکے مشہور ناول گارڈ فادر کے مشہور جملے سے کی۔ "دولت کے ہر بڑے خزانے کے پیچھے جرم چھپا ہوتا ہے"۔ اس جملے کے پس منظر میں عمران خان کی واضح فتح محسوس کی جا سکتی ہے۔ چوں کہ انہوں نے جو سوالات اٹھائے تھے، انہیں سوالات کا سامنا وزیراعظم اور نے بچوں کو مختلف اداروں پر مشتمل جے آئی ٹی کے ذریعے کرنا پڑے گا۔ یوں تو ہماری سابقہ تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جہاں جے آئی ٹی کا کوئی نتیجہ نکل سکا ہو۔ خواہ وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی جے آئی ٹی ہو یا سانحہ کوئٹہ کی۔۔۔ لیکن ہمیں ناامید نہیں ہونا چاہئیے، شاید دلہن گھر اجڑنے سے بچا لے اور گھربسا لے۔ مگر پھر بھی یہ بات رسوائی کا سبب تو ہے، حالاں کہ وزیر اعظم کے لیئے استعفیٰ ہی بہترین حل تھا، جس سے ان کی بچی کھچی نیک نامی کو فروغ مل سکتا تھا۔ چناں چہ حکم ران ایسے فیصلے کر یں تو کیوں؟ ان کی طاقت ہاتھ میں رہے تو ان کا غلبہ رہتا ہے وگرنہ آنکھیں دکھانے والوں کی بھی کمی نہیں۔ چڑھتے سورج کو سلام کرنے والے تو بہت ہوتے ہیں لیکن ڈوبتے جہاز کے ساتھ کوئی نہیں ڈوبنا چاہتا۔ یہی وجہ ہے کہ حکمران اپنے منصب کو چھوڑنے کی غلطی نہیں کرنا چاہتا۔ یہاں منجھے ہوئے سیاست دان چوہدری شجاعت کا کہنا ہے کہ آیا حکمران جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں گے یا جے آئی ٹی ان کے رو برو خدمت میں حاضر ہو گی؟
    یاد رہے کہ ملکی سیاست میں پانامہ کیس کا فیصلہ دوررس نتائج کا حامل ہے، پانامہ کیس کا فیصلہ آئندہ بیس برس یاد رکھا جائے گا یا سو برس، اس سے قطع نظر یہ فیصلہ رکے ہوئے پانی میں وزنی پتھر کی طرح گرا ہے۔ اس سے پیدا ہونے والا ارتعاش طرز حکم رانی میں بنیادی اور کلیدی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتاہے۔ اس میں بھی دو رائے نہیں کہ یہ راستہ سلامتی اور دانش مندی کا فیصلہ ہو سکتا ہے۔ ہماری تو یہی دعا ہے کہ پانامہ کیس کا فیصلہ سیاست کے میناروں کی مجموعی سرخ روئی کا سبب بنے تا کہ وہ یہ فخر سے کہیں:؂
    سب قتل ہو کے تیرے مقابل سے آئے ہیں
    ہم لوگ سرخرو ہیں کہ منزل سے آئے ہیں