• Breaking News

    سائیں اب وہ سائیں نہ رہے!

    یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ ہم پنجابی میں سائیں کسی مست، دیوانے اور حواس باختہ شخص کو کہتے ہیں۔ لیکن سندھ یا سندھی میں سائیں سے مراد وڈیرہ، سردار اور شان ورعب والا لیا جاتا ہے۔ خیر یہاں "سائیں" سے مراد ہمارے وڈے سائیں سید قائم علی شاہ ہیں۔ جنہیں اب سابقہ وزیراعلیٰ سے یاد کیا جائے گا۔ نیا وزیراعلیٰ آجانے پر قائم علی شاہ اب اپنے اختیارات اپنے جانشین سید مراد علی شاہ کو منتقل کر چکے ہیں۔ آخر شاہ جی کی لمبی رات اختتام پزیر ہوئی، شاہ جی سے اختیار نامہ مراد علی شاہ کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ اور یوں شاہ جی نیند سے بیدار ہو گئے ہیں۔ یہ بات شاید کچھ ایسے بھی ہے کہ زرداری صاحب کو وڈے سائیں کا شکریہ ادا کرنا چاہئیے کہ انہوں نے انہیں اتنی دیر برداشت کیا۔ اپنی کمزور صحت اور زائدالعمری کو زرداری صاحب کی الفت کے نام کیا۔ جس وفا کا شاید شاہ جی عہد کرتے تھے، بھرپور نبھایا۔ حتیٰ کہ سنگین علالت بھی آڑے نہ آئی۔
    پاکستان پیپلز پارٹی نے وزیراعلیٰ سندھ کو سبکدوش کرنے علاوہ کابینہ میں تبدیلیوں سمیت بیشتر دو رس فیصلے کئے ہیں۔ دریں اثناء ملک میں ہنگامی بنیاد پر تنظیم سازی اور آزاد کشمیر میں تنظیمی تبدیلیوں کے فیصلے کئے جانے کا روشن امکان ہے۔ قائم علی شاہ کی شخصیت بارے عام لوگوں کی یہی رائے ہے کہ وہ نہایت بردبار، منجھے ہوئے سیاستدانوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ جن کی تبدیلی کا فیصلہ گزشتہ چند روز سے اوپن سیکرٹ کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ جبکہ میڈیا میں بھی ایسی رپورٹس گردش کر رہی تھیں۔ شاہ جی یعنی شاہ جی وڈے سائیں کی جگہ کوئی اور شاہ آرہے ہیں۔ شاہ جی کے جاں نشیں لانے کا فیصلہ اگرچہ مشکل تھا۔ چونکہ قائم علی شاہ نے سندھ میں انتہائی مخدوش حالات میں "تبدیلی" کرنے کی ہر کوشش کو مسترد کر دیا تھا۔ اور بلا شبہ وڈے سائیں آصف علی زرداری کے لئے مردِ بحران کا درجہ رکھتے تھے۔ ان تمام حقیقتوں کے باوجود شاہ صاحب کی گرتی ہوئی صحت، عمر اور اس کے مقابل سندھ کی سیماب صفت سیاست کے بار گراں کو مدنظر رکھتے ہوئے زرداری و بلاول قیادت نے دبئی کی گرم سرزمین پر ٹھنڈے دماغ سے جو فیصلہ کیا ہے، احسن اور کسی قدر جرأت مندانہ اقدام تھا۔ اس سے قبل واقفانِ حال بتاتے ہیں۔ جب قائم علی شاہ کے دورِ حکومت میں جہاں کئی اہم اقدامات اور فیصلے ہوئے۔ وہیں کراچی کی ابتر صورتحالات (پی پی اور ایم کیو ایم کشیدگی) محبت اور عداوت کی آنکھ مچولی نے آتش فشاں کا کام کیا۔ بعد ازاں رفتہ رفتہ شہرِ قائد قانون کی حکمرانی کے نام پر مذاق بن گیا۔ قتل و غارت گری، لاشوں کی بیہمانہ سیاست اور رسم چل نکلی۔ مختلف نوع کے داخلی و خارجی مافیاؤں نے علاقوں پر تسلط جما لیا، دہشت گرد تنظیمات نے موقعِ غنیمت جان کر نیٹ ورک قام کئیے۔ پھر آپ نے دیکھا لیاری میں گینگ وار کی بادشاہت ہی پیپلز پارٹی کی بربادی کا رونا دھونا بنی۔ مگر کیا حکومت نے واقعی کرپٹ بلاؤں کو اپنے دامن میں خود چھپائے نہیں رکھا؟ اس صورتحالات سے نمٹنے کے لئے جب پولیس کو ناکامی کا سامنا ہوا تو وفاق نے رینجرز کو مکمل اختیارات دینے کا ناگززیر فیصلہ کیا۔ یہی وہ نقطہ آغاز تھا، اس زیریں جنگ اور کشمکش مابین سندھ حکومت اور رینجرز کا۔ پھر ہر مدت کے اختتام پر اختیارات کی توسیع کے نام پر جھگڑا چلتا رہا۔ بہر حال پی پی قیادت نے بعد از خرابئ بسیار جو فیصلہ کیا ہے اسے اب نتیجہ خیز بنانے کے لئے نئے وزیراعلیٰ کو فری ہینڈ دیا جانا چاہئیے۔ چونکہ کراچی پورے ملک کا معاشی انجن ہے۔ اس شہر کی ترقی ملکی سالمیت اور عوام کی اقتصادی آسودگی کے ساتھ منسلک ہے۔ نئے آنے والے وزیراعلیٰ سندھ کے لئے کراچی کا امن کسی صورت کڑے امتحان سے کم نہیں ہے۔ آج بھی سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز موجود ہیں اور اسلحہ کی بہتات ہے۔ محض یہی نہیں بلکہ بھتہ خوروں اور اغواء برائے تاوان گروہوں نے بھی کراچی شہر کو لاوارث بنا کر رکھ دیا ہے۔ اس لئے رینجرز کا یہ فخریہ کارنامہ ہے۔ مجرمانہ مافیائیں اب اتنی طاقتور نہیں رہیں کہ شہر کو یرغمال بنا لیا جائے۔ سو وقت کا تقاضہ ہے کہ سندھ حکومت، وفاق اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اشتراکِ عمل سے ہی سندھ کے عوام کو جمہوریت کی بوندھ بوندھ ثمرات سے مستفید کیا جائے۔ اس بات کا اندازہ سندھ کی سیاسی تاریخ کرے گی کہ قائم علی شاہ کی انتظامی کارکردگی کو ریٹنگ کے کس پیمانے پر رکھا جائے۔
    قارئین ، یہ سید قائم علی شاہ کا ہی دور تھا جب تھر میں خوفناک قحط پڑا اور سینکڑوں بچے، بوڑھے ہلاک ہوئے۔ لوگ پانی کی بوندھ بوندھ اور اناج کے دانے دانے کو ترس گئے تھے۔ ادھر صوبائی حکومت کی جانب سے بھجوائی گئی گندم کی بوریاں مٹی سے بھری نکلیں۔ صرف یہی نہیں گندم ضرورت مندوں کو ملنے کے بجائے گوداموں میں پڑی پڑی کیڑے مکوڑوں کا لقمہ بنتا رہی۔ عام رائے یہی تھی کہ اگر سندھ حکومت اپنا قدرے فعال کردار ادا کرتی تو تھر میں قحط سے بھوکوں مرنے والوں کو بچایا جا سکتا تھا۔ یہ بدنامی کا ایسا توق تھا جو پی پی کے گلے میں پڑا۔ تھر میں بلاآخر کوئی کام ہوا بھی تو فلاحی تنظیموں نے ہی کیا۔ جنہوں نے کنوئیں کھدوائے، ہینڈ پمپ نصب کئے اور علاج معالجے کے علاوہ خوراک کے انتظام میں اپنی کاوشیں کیں۔ مگر حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی۔ اسی طرح اس دور میں کراچی شہر میں پانی کا مسئلہ طول پکڑ گیا لیکن اس مسئلہ کو بھی سندھ انتظامیہ نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ سندھ میں آج بھی پی پی کی مقبولیت اور کامیابی کے لئے اس کے ذاتی کام وجہ نہیں ہیں۔ بلکہ "بھٹو فیکٹر" ہی اپنا رنگ دکھاتا ہے۔ دیہی علاقوں میں یہ نام عصبیت کی صورت دھار چکا ہے۔ مگر یہ سلسلہ کب تک جاری و ساری رہے گا؟ اگر پارٹی چاہتی تو قائم علی شاہ سے بھی مثبت کام لئے جا سکتے تھے۔ جو پارٹی کی نیک نامی کا موجب ہوتے۔ اگر پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے ہتک نہ ہوتو اب وہ یہ حقیقت تسلیم کر لیں کہ پارٹی کا امیج پہلے جیسا نہیں رہا۔ شاید بلاول زرداری بھٹو مرحوم کے فلسفے پر عمل پیرا ہوں تو ہی کامیاب ہو سکیں گے۔ وقتی طور پر انہیں کراچی میں امن کے راستے میں دیوار نہیں بنانی، رینجرز کو مکمل اختیار دے دئیے گئے تو کامیابی کا سارا کریڈٹ پی پی کو ہی جائے گا۔ اور اس سے امیج سافٹ ہو سکتا ہے۔ لیکن قائم شاہ کو وڈے سائیں سے یاد کرنے والوں کے لئے خبر یہ ہے کہ "سائیں اب وہ سائیں نہیں رہے"۔