• Breaking News

    مشاہدات و افکار میں گندھی تخلیق کا مطالعہ

    محترم عبدالرشید اعوان کے کالموں کا مجموعہ "اجالا" ان کے قلم کا اعجاز اور ان کی طرز تحریر کی منہ شگافیاں ہیں۔ جو پوری کتاب میں ان کے تفکر، تدبر اور بصیرت کا پتہ دیتی ہیں۔ کتاب کیا ہے؟ ان کے مشاہدات، تجربات اور گزرے ہوئے تلخ و شیریں واقعات کی ایک لخت لخت داستان ہے۔ موجودہ عہد میں، جب کہ نثری اصناف سخن میں کالم نگاری کا افتخار تسلیم کر لیا گیا ہے۔ عبدالرشید اعوان کے جملہ کالم ادب پارے بھی ہیں اور انشا پردازی کے بہترین نمونے بھی۔ ان کے ہاں کالم نگاری مضمون نویسی کی ہی ایک شکل ہے۔ جس کے موضوعات فکر و نظر کے ایک بڑے قینوس پر پھیلے ہوئے ہیں۔ کتاب کھولتے ہی، اظہار تشکر کے بعد ان کا لکھا ہوا"برسبیل تذکرہ"ان کے نطق اور قلم کی عاجزی کا ایک ایسا نمونہ ہے، جس کے عقب میں دانش اور تدبر کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ وہ خود نوشت میں جسے اپنی علمی کم مائیگی کا اعتراف کہتے ہیں۔ در اصل وہ ان کی وسیع النظری اور وسعت قلبی کے علاوہ فہم و فراست کا بین ثبوت ہے۔ ان کے بعض جملوں پر قاری چونک پڑتا ہے، یا پھر انہیں داد دیتے اور سر دھندتے ہوئے نظر آتا ہے۔ مثلاً ان کے مشاہدات زندگی میں ایک تجربہ ملاحظہ فرمائیے۔
    "ریٹائرمنٹ کے بعد جب عظمت کے ان بلند روشن میناروں کی روشنی اور گھمبیر سایہ دار شجرات کے سایوں سے دور ہوا تو مجھے اندازہ ہوا کہ باہر کا ماحول فوج کے ماحول سے بہت مختلف تھا۔ وہاں کے اوزان و میزان اور تھے، یہاں کے کچھ اور۔ وہاں انسانوں کو پرکھنے کی کسوٹی اور تھی اور یہاں کی اور۔ اچھے معاشرے اور اچھے لوگ موجود تھے،تعلیمی یافتہ اور مہذب بھی تھے مگر بہت کم۔ ایک ایسا "منطقہ" بھی دیکھا جہاں لوگوں کے عرض روح میں زرخیزی تھی، نہ ہی ذرہ بھر نم۔ صحرا ہی صحرا۔ دور تک نخلستان کا کوئی نشان نہ تھا۔ باہمی محبت اور ایثار کے روشن ستاروں سے ان کے ذہنی افلاک محروم تھے۔ البتہ سیاہ کالے بادل اکثر چھائے رہتے تھے، صرف گرجتے تھے، اور ہوا کے دوش پر اڑتے پھرتے تھے۔"
    یہ دو قسم کی طرز زندگی کی جہتوں کا تقابل ہے، جو انہوں نے اپنے تئیں ذاتی مشاہدات کی بنا پر کیا، اس راہ میں انہوں نے میر جعفر اور میر صادق دیکھے اور اکیسویں صدی کے کئی عبداللہ بن ابی بھی انہیں نظر آئے۔ خوش آمدیوں اور ابن الوقت بھانڈوں کا احوال جانچنے کا بھی موقع ہوا۔ اور مصلحتیں جوبسا اوقات آڑے آجاتی ہیں، بھی دیکھنے کو ملیں۔ اس موقع پر بلا شبہ انہوں نے یہ شعر حسب حال تحریر کیا:؂

    وہ وقت بھی دیکھا ہے تقدیر کی گھڑیوں نے

    لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی

    کتاب پڑھتے ہوئے اس بات کا شدت کے ساتھ احساس ہوتا ہے کہ ایک بے لاگ لکھاری جہاں دلیرانہ طریقے سے اپنی بات کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے، وہاں وہ عصری محرومیوں اور اپنے عہد کی ٹوٹ پھوٹ کا احوال بھی ایک جداگانہ انداز میں تحریر کر رہا ہے۔ "اجالا"عبدالرشید اعوان کی کتاب ہمارے عہد کے تناظر میں ایک ایسی تخلیقی کاوش کا درجہ رکھتی ہے، جس میں مادی و روحانی اور اخلاقی و تہذیبی تناظر کھل کر سامنے آتے ہیں۔ یوں کہ قاری نہ تو ان سے سرف نظر کر سکتا ہے اور نہ ہی اس حوالے سے ابھرنے والی حقیقتوں کو نظر انداز کر سکتا ہے۔ کتاب کا خاص حصہ جناب عبدالرشید کی عسکری داستان کا تناظر بعنوان "وہی چراغ جلاؤ تو روشنی ہوگی" چار اقساط میں موجود ہے۔ جس کے مندرجات تہہ در تہہ عسکری روایات، احساسات اور ضابطہ ہائے اخلاق کے علاوہ تعلیم و تربیت کے مینارائے نور کا پتہ دیتے ہیں۔ انہوں نے اس داستان کی جزویات میں جا کر بعض حقائق اس طرح باز یافت کئے ہیں کہ وہ غیر عسکری ماحول کی تربیت گاہ کا اور اخلاقیات کا درجہ بھی رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے عبدالرشید اعوان کی کتاب محض کالموں کا مجموعہ ہی نہیں، زندگی اور نظام زندگی کے ایسے پہلوؤں کی نشان دہی ہے، جو وہ ایک کام یاب معاشرے کے لئے ناگزیر سمجھتے ہیں۔
    میں سمجھتا ہوں کہ فاضل کالم نگار نے، کالم نگاری کی مروجہ روایتوں سے انحراف کیا ہے اور جا بجا اس کی پاس داری کے نقوش بھی سامنے آتے ہیں۔ ان کے خیال میں کئی حوالوں سے کچا پھل بھی زندگی کے کام آسکتا ہے، چہ جائے کہ وہ درخت کی ٹہنیوں پر ہی گل سڑ جائے اور زندگی کے کام نہ آئے۔ میں انہیں کتاب کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ وہ اپنے قلم کی حرمت اور تقدس کی پاس داری کرتے ہوئے، اسے متحرک رکھیں گے اور کالم نگاری کے ذریعے قومی خدمات کا فریضہ انجام دیتے رہیں گے۔