• Breaking News

    پارٹ ٹائم لیڈر نہیں ہوتا



    شادی کیا ہوتی ہے؟ یہ سوال ایک سائنس دان کے ذہن میں مسلسل کھلبلی مچا رہا تھا۔۔۔ اسی اثناء اس کے ذہن میں خیال ابھرا کہ کیوں نہ شادی کر لی جائے۔ یوں اس نے شادی کر لی۔ اور جب سے اس نے شادی کی تب سے وہ یہ بھول بیٹھا ہے کہ اب سائنس کیا ہوتی ہے؟ کچھ ایسا ہی حال ہمارے ملک کے مذہبی سکالر ڈاکٹر طاہرالقادری کا ہے۔ جو زندگی بھر دین اسلام کی ترویج اور تبلیغ کے لئے امت مسلمہ کو آقا ﷺ کا پیغام امن، محبت اور اخوات دیتے رہے۔ انہوں نے اسلامی تعلیمات کا درست اور زبردست پرچار کیا، اسی بنا پر وہ ملک اور ملک سے باہر اعتدال پسند مذہبی سکالر کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ دنیا میں انہیں سفیر امن کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ لیکن انہیں زندگی میں متعدد بار ایک ہی مشکل پیش آئی۔ وہ بھی یہی جاننا چاہتے تھے کہ آخر ’سیاست‘ کیا ہوتی ہے۔ یہی کچھ جاننے کے لئے انہوں نے سیاست میں قدم رکھا۔ پھر جب سے وہ سیاست میں قدم رنجہ ہوئے (میں یہ نہیں کہتا کہ مذہب بھول گئے، لیکن کم سے کم) مذہب اور دینی سکالر والی ان کی پہچان خاصی مانند پڑ گئی ہے۔ سیاست میں آنے کی بے چینی ان کے گلے میں پڑ گئی اور ان کی زندگی کا منفی پہلو بن گئی۔ ان کے حصے میں اللہ تعالیٰ نے دین محمدیہ ﷺ کی خدمت رکھی تھی۔ مگر وہ جان بوجھ کر پارٹ ٹائم سیاسی رہنما بننے میں اپنا، پیروکاروں کا اور عوام کا وقت برباد کرتے رہے۔ انہوں نے اپنا دینی تشخص پامال کیا اور بھول گئے کہ ان کا شعبہ سیاست نہیں مذہب ہے۔ انہوں نے جب جب کارزار سیاست میں قدم رکھنے کا سوچا ناکامی بری طرح ان سے لپٹی۔ ان تمام ناکامیوں کے باوجود وہ پیچھے نہیں ہٹے۔ بیشتر لیڈر اپنے اچھے مشیروں کی بدولت کامیاب ہوئے اور بہت سے ان جیسے لیڈر اپنے نالائق مشیروں کی وجہ سے مات کھاتے رہے۔ ان کے مشیروں نے انہیں بتایا نہ خود انہیں یہ ادراک ہوا۔ جیسے پارٹ ٹائم عالم کی علمیت نہیں چلتی ویسے ہی پارٹ ٹائم سیاسی لیڈر کی بصیرت بھی کار گر نہیں۔
    سخت تنقید کرنے کے سبب مجھے یہ بتانے کی بھی ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ میرے دل میں ڈاکٹر صاحب کے لئے ازحد احترام ہے، لیکن ان کاحمق اکثر دل دکھا دیتا ہے۔ اتنے سمجھدار، پڑھے لکھے اور فہم و فراست کے مالک ہونے کے باوجود وہ نہیں طے کر پاتے کہ کیا درست ہے اور کیا نہیں۔ لیکن اس بات میں کافی وزن ہے کہ ان کے مشیر نہایت نالائق ہیں وگرنہ ان کی ذات میں بظاہر کوئی کجی نہیں۔ چونکہ سپاٹ لائٹ میں ڈاکٹر قادری آتے ہیں، یہی وجہ ہے مشیروں کی نالائقی بھی قادری صاحب کے حصے میں آ جاتی ہے۔ ان کی اچھی سوچ اور مثبت کاوش غارت ہو جاتی ہے۔ فارسی کا مشہور مقولہ بھی ہے کہ؛ پیران پرند مریدان می پرانند۔
    ایک تازہ مثال ہی ملاحظہ فرمائیں، جب مال روڈ پر جلسہ ہو رہا تھا تو قادری صاحب کے ایک مشیر خرم نواز گنڈا پورسے مبشر لقمان نے سوال کیا تو انہوں نے ایک عجیب درفنتنی چھوڑی کہ اس جلسے میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف اپنے استعفے دیں گے اور اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کریں گے۔ اتنی غیر ذمہ دارانہ بات پھٹ سے کہہ دی جو سرے سے زیر غور تھی ہی نہیں۔ اتنی بڑی بات چھوٹے سے منہ سے اگل دی اور ذرا بھر ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ 
    اب بات کرتا ہوں حالیہ اجتماع بمقام مال روڈ لاہور کی۔ حقائق کچھ بھی ہوں لیکن دودرجن کے قریب جماعتیں اور ایک چُنی مُنی جلسی واضح پیغام دے رہی تھی کہ پارٹ ٹائم لیڈر کے جھنڈے تلے سب ایک نہیں ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے معاملے پریکجہتی کرنے والی ہر جماعت کے ہررہنما کی اپنی اپنی باڈی لینگویج تھی۔ زیرو ہوم ورک اور ناقص حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اترا جائے تو ایسا ہونا فطری امر ہے۔ یہ اکٹھ امرت دھارا ہی تو تھا جس میں ہر حکیم اپنے اپنے نسخوں کے ساتھ تشریف لایا تھا۔ طاہرالقادری کا ایجنڈانظر انداز، زرداری کا اپنا مسئلہ، شیخ رشید کا اپنا رونا اور عمران خان کی اپنی سولو پرواز۔ کوئی کسی ایک نکتہ پر اکٹھا نہیں ہوا تھا۔ کوئی اس پارٹ ٹائم لیڈر قادری صاحب کا کیا کرے، ان کی باتوں پر کیوں توجہ دے جو دو درجن جماعتوں کے ہاتھوں استعمال ہوئے۔ سیاسی لیڈروں کو اپنے دائیں بائیں بٹھا کر جب نشست برخواست کی تو کیا حاصل ہوا، صرف ناکامی؟ حالانکہ ان کا مسئلہ بڑا ہی حقیقی اور توجہ طلب ہے لیکن وہ خود اس مسئلے کو بگاڑ رہے ہیں۔ اپنے سیاسی مقاصد کے لئے اس مسئلے کو استعمال کرنے کی سوچ غلط ہے۔ بہت دکھ ہوا جب ان کے دائیں بائیں بیٹھے لوگ ان کے مہیا کردہ پلیٹ فارم کا نہایت غلط استعمال کر رہے تھے۔ شدید تکلیف ہوئی جب ان کی بغل میں بیٹھے لوگ سپریم ادارے پارلیمنٹ پر لعن طعن کر رہے تھے۔ کیا ڈاکٹر قادری نے مذمت میں ایک لفظ بھی کہا، کیا پارلیمنٹ کے تقدس کی امین بننے والی جماعت پی پی پی کے اعتزاز احسن نے جرات کی؟ جوجو وہاں نمائندگی کر رہا تھا انہیں یہ خیال تو کرنا چاہئیے تھا کہ آخر وہ اکٹھے ہوئے کیوں ہیں؟ طاہرالقادری کو بھی سوچنا پڑے گا کہ ان کے سٹیج کا غلط استعمال کرتے ہوئے ماڈل ٹاؤن کے مقدمے کو کمزور بنا نے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان سب نے اپنی اپنی سیاست کو اہم سمجھا اور ماڈل ٹاؤن کے شہداء کو غیر اہم سمجھا۔ انہوں نے جو منفیت کی ترویج کی کیا یہ قادری صاحب کے ساتھ خیر خواہی تھی یا بد خواہی؟؟؟
    ڈاکٹر صاحب کو چاہئیے کہ ان سیاسی گماشتوں کا آلہ کار نہ بنیں، ان کے اپنے مسائل ہیں، ہر کوئی اپنا الو سیدھا کرتا ہے۔ آپ براہ کرم ایجی ٹیشن کی سیاست کرنے کے بجائے، جسٹس باقر نجفی رپورٹ کو لے کر عدالت جائیں۔گلی محلوں میں عدالتوں سے انصاف نہیں ملتا۔ آپ کو گزشتہ دن جو رسوائی ہوئی اس کو لے کر ہی کوئی سبق سیکھ لیں۔ آپ نے متعدد کوششیں کیں پارٹ ٹائم سیاسی رہنما بننے کی، لیکن آپ ناکام ہوئے۔ آپ کو ان کوششوں کا ثمر کسی اور انداز میں مل سکتا ہے لیکن آپ پارٹ ٹائم کام چھوڑ کر اپنے فل ٹائم کام پر توجہ دیں۔ وہ کام متاثر ہو رہا ہے۔

    No comments