• Breaking News

    انصاف کس کا؟

    نہایت کڑوی مگر عین حق "بات اس ملک میں انصاف محض طاقت ور کا استحقاق ہے، ہم تو کیڑے مکوڑے ہیں۔" یہ الفاظ پریشاں حال اور دکھیارے زینب کے والد صاحب کے ہیں۔ قصور کی وہ زینب جو گزشتہ دنوں جنسی زیادتی کے بعد قتل کر دی گئی تھی۔ میرے نزدیک اس ملک میں انصاف کی عدم موجودگی بارے یہی کچھ کہا جا سکتا ہے۔ ایک بات اکثر سُنی اور جب غور کیا تو اس کی حقیقت کا اندازہ ہونے لگا۔ کہا جاتا ہے معاشرہ ہر قباحت، پسماندگی، منفی رجحان اور برائی کے باوجود انتہائے زوال سے بچ سکتا ہے "لیکن اگر معاشرے میں انصاف ملے"۔ پھر اگر انصاف ناپید ہے تو تمام اچھائیاں، ترقیاں اور تعمیری کاوشیں اس معاشرے کی بربادی اور ڈوبتی بیڑی کو ڈبونے کے لئے ناکافی ہیں۔ انصاف کی فراہمی ناممکن ہے، تادم وقت انصاف کے نظام میں اصلاحات نہ کر لی جائیں ۔

    ہمارے معاشرے میں ایسی درجنوں حالیہ مثالیں ہیں جہاں ثابت ہوا کہ انصاف کا استحقاق فقط امیر اور طاقتور کو حاصل ہے۔ بااثر شخص اس دھرتی پر بہ آسانی انصاف خرید سکتا ہے۔ یاد کریں ذرا شاہد جتوئی کو۔ جس نے مبینہ طور پر شاہ زیب خان کا کراچی کی گلیوں میں ناحق قتل کیا۔ جب انسداد دشت گردی کی عدالت کے رو بہ رو پیش ہوا تو کس ڈھٹائی کے ساتھ وکٹری کا نشان بنائے میڈیا کیمروں کو ایک پیغام دے رہا تھا۔ باوجود اس کے کہ اس پر قتل کا الزام تھا لیکن اس کے چہرے پر نمایاں مسکراہٹ معنی خیز تھی۔ اس کی مسکراہٹ دراصل پاکستان کے نظام انصاف کو منہ چڑا رہی تھی۔ کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ جلد یا بدیر اس نے مختلف قسم کی ساز باز کر کے پاکستان کے ناقص نظام انصاف کو خرید لینا ہے اور آزاد ہو جانا ہے۔ حیران ہوں کہ آج وہ واقعی آزاد ہے۔

    دوسرا واقعہ بلوچستان کے ایم پی اے کا بھی یاد کیجیئے جس نے غریب پولیس اہلکار کو اپنی کار تلے روند دیا تھا۔ کیا اس کے لواحقین کو انصاف ملا؟ وہ بھی گزشتہ دنوں بغیر کوئی سزا پائے آزاد ہو گیا۔ کیا وجہ ہے کہ قانون کے لمبے سارے ہاتھ چھوٹے سے پڑ گئے، جب معاملہ بااثر اور طاقت ور کا آتا ہے تو ایسا ہونا یقینی بات ہے۔

    پھر آپ کو وہ وڈیو ریکارڈنگ بھی یاد ہو گی جب کراچی میں ایک نوجوان لڑکے سرفراز شاہ کو رینجرز کے اہلکار نے گولیاں مار کے تڑپتے چھوڑ دیا تھا اور جب نیم مردہ ہوا تو ہسپتال لے گئے، اس کی بھی رحم کی اپیل صدر پاکستان کے پاس ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ وہ اپیل کو رد ہو۔
    پاکستان کو "پاکستان" تو کہا جاتا ہے لیکن یہ وہی پاک ستان ہے جہاں بااثر قاتل بغیر کسی رکاوٹ کے رہا ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس ایک غریب اور بے چارہ شخص فرسٹ انویسٹیگیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے لئے دھکے کھاتا رہتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو پولیس کی پہلی ذمہ داری عام شہریوں کی جان و مال کا تحفظ ہوتا ہے۔ لیکن یہاں پاکستان میں پولیس اشرافیہ کے تابع رہتی ہے۔
    قارئین، اگر زینب کسی بااثر اور طاقتور کی بیٹی ہوتی تو یقیناً اسے اور اس کے لواحقین کو ایسی صورت حالات کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ کم از کم جب اس کے اغواء کی رپورٹ داخل کی گئی تو پولیس بہتر رویہ اختیار کرتی۔ پنجاب حکومت اس وقت ہر طرف سے تنقید کی زد میں ہے۔ عوام، اپوزیشن پارٹیز اور قصور کے لوگ سخت غصے میں ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ قصور میں کم سن اور معصوم بچیوں کے اغواء اور قتل پر فوری اور مؤثر کارروائی کی جائے۔ اور یقیناً حکومت وقت ایسے واقعات کی جواب دہ بھی ہے۔ لیکن آج اگر کسی اور سیاسی جماعت کی حکومت بھی ہوتی تو صورت حالات کچھ مختلف نہ ہوتی۔ کیوں کہ ہمارا نظام پولیس اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ یہ محض اور محض طاقت ور کی خدمت کرتا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ سیاسی جماعتوں کے ہر دوسرے معاملے پر تحفظات اور مخالفتیں ہوتی ہیں۔ لیکن نظام پولیس میں اصلاحات نہ کرنے کے حق میں تو جیسے ان کے درمیان کوئی معاہدہ ہے۔ پولیس کو سیاسی اثر روسوخ سے آزاد کرانے کے خلاف ان جماعتوں کا غیر تحریر شدہ سمجھوتہ ہے۔ جمہوری یا کہ آمر حکومتیں دونوں پولیس کو صرف اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال کرتی رہی ہیں۔ حتیٰ کہ آج بھی لوگوں کو اگر چھوٹا بڑا مسئلہ درپیش آتا ہے تو وہ کبھی پولیس کے پاس براہ راست نہیں جاتے بلکہ علاقے کے ایم این اے یا ایم پی اے کو درمیان میں استعمال کرتے ہیں۔ پھر پولیس وہی کرتی ہے جو ایم این اے یا ایم پی اے کہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی سیاسی جماعت پولیس اصلاحات کی طرف نہیں بڑھتی کیونکہ یہ لوگ پولیس کا دھونس جما کر ہی نچلی سطح کے معاملات اپنے حق میں یکسو کرتے ہیں۔ 
    ان تمام سخت اور ناگوار حقیقتوں کے بعد ہم نے زینب کے حوالے سے سخت احتجاج کئے لیکن یاد رہے یہ بھی کوئی پہلی بار نہیں ہوا۔ اس معصوم بچی کو انصاف نہ ملے تو اس گلے سڑے نظام انصاف کو کوئی پرواہ نہیں۔ سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا معصوم زینب کی سپورٹ میں تو بہت نکلا اور JusticeforZainab # کا ہیش ٹیگ بھی مقبول ہوا۔ وزیراعظم، اپوزیشن لیڈرز، آرمی چیف، چیف جسٹس اور ادھر ادھر سے مختلف بیانات بھی آئے۔ لیکن آپ یہ بات تسلیم کریں نہ کریں مگر ہمارا ردعمل کھوکھلا ہے ہم جلد زینب کو بھی بھول جائیں گے.

    No comments