• Breaking News

    عمران خان‘ وہ کہتے ہو جو خود نہیں کرتے؟


    کیا لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے تئیں بھول جاتے ہو۔کتاب لاریب، سورۃ بقرہ کی 44 نمبر آیت میں اللہ تعالیٰ یہ ارشاد فرماتا ہے۔ لیکن ہم عمومی طور پر اس فرمان کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ہم اکثر اچھے اچھے کلمات تو ادا کرتے ہیں لیکن خود اس پر سرے سے عمل پیرا نہیں ہوتے۔ ہمارے لیڈر کہ جن کے ہاتھ میں ہم پورا ملک اور فرداً فرداً اپنا ہاتھ دینا چاہتے ہیں وہ اپنے موقف سے خود ہی پھر جاتے ہیں۔ ہمیں ان کا منشور اپیل کرتا ہے، ہم انہیں اہل سمجھتے ہیں اور انہیں با کردار و با عمل سمجھتے ہیں۔ ہم انہیں اپنے لئے، ملک کے لئے اور پوری قوم کے لئے منتخب کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ہم سب کے حقوق کا تحفظ کریں گے، ہماری جان و مال کی حفاظت کریں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام توقعات خوامخواہ نہیں جڑتیں۔ دراصل ہم ان کے گفتار و کردار سے متاثر ہوتے ہیں۔ 

    اگر میں حق گوئی کا ساتھ چھوڑ دوں تو مجھے نہیں لگتا لوگ پسند کریں گے، اس لئے ہمیشہ اپنی دانست میں جو رائے کسی بارے قائم کرتا ہوں، اس کو اچھا یا برا کہنے میں بھی پورا پورا انصاف کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس لئے تنقید کرتے ہوئے دوسرے کے حق میں جو بات جاتی ہے اس سے منافقت نہیں کرتا۔ ہم عمران خان کو کئی حوالوں سے جانتے ہیں۔ مثلاً کہ وہ پاکستان کے پہلا کپتان تھا جس کی قیادت میں پاکستان کرکٹ ٹٰیم ورلڈ کپ جیتی، وہ پہلا شخص تھا جس نے معاشرے میں نوجوانوں کے کردار کو محسوس کیا اور انہیں تحریک میں لایا، وہ پہلا انسان تھا جس نے خواتین کو معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے کی ترغیب دی، اسی طرح وہ پہلا شخص تھا جس نے جاگیردارانہ نظام کی مخالفت کی اور موروثی سیاست کے خلاف نفرت کی حد تک گیا۔ موروثی سیاست کی حوصلہ شکنی کے علاوہ اپنی سیاسی جماعت تحریک انصاف کے ماتھے پر بھی یہ لیبل لگایا کہ یہ جماعت واقعی عام لوگوں، نوجوانوں اور خواتین کی جماعت ہے۔ یہ موروثی سیاست کا قلع قمع چاہتی ہے، یہ نظام عدل کو بہتر بنانا چاہتی ہے اور انتخابات میں شفافیت کی متمنی ہے۔ یہ جماعت پولیس کو سیاسی اثر و رسوخ میں استعمال کرنے کے سخت خلاف ہے۔ یہ پٹواری کلچر سے متصادم ہے۔ غرضیکہ جو تمام اچھی اچھی باتیں کوئی توقع کر سکتا ہے سب ہمہ وقت اس جماعت میں پائی گئیں۔ اسی لے لوگوں نے قبول کیا اور گزشتہ چند سالوں میں میڈیا اور اداروں سمیت عوام نے اسے ہر طرح سے کوتاہیوں کے باوجود مواقع فراہم کئے۔
    قارئین کرام ابتدائیے میں جیسے بیان کیا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے؛ کیا لوگوں کو بھلائی کا حکم کرتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو۔ تو کیا یہ بات ہم عمران خان کے گوش گزار نہیں کرنی چاہئیے کہ جنہیں ہم نے زمین سے اٹھا کر آسمان بٹھا دیا۔ جو پوری قوم کے لئے نیک نیتی کے ساتھ مثبت رویوں پر بات کرتا رہا۔ جب انہیں اس کا ثمر ملنے لگا تو وہ خود اپنے کہے کو فراموش کر بیٹھے۔ کیا وہ دوسروں کو کٹھ پتلی کہتے کہتے خود بھی ان سے متاثر تو نہیں ہو رہا؟ کبھی وہ شیخ رشید کے اشاروں پر سیاست کرتے دکھائی دیتا ہے تو کبھی اپنی جماعت کے چند بااثر اراکین کے ہاتھوں استعمال ہوتا ہے۔ درحقیقت وہ اپنی تحریک کو خود نقصان پہنچا رہا ہے۔ انہوں نے اپنی جماعت کا نام تحریک انصاف تو چنا، لیکن اب اس میں نہ کہیں تحریک نظر آ رہی ہے نہ ہی انصاف دکھائی دیتاہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ ہر کام میں تحریک تو پیدا کر دیتا ہے لیکن انصاف نہیں کر پاتا؟ کیا انہوں نے جہانگیر ترین جو نا اہل ہوئے ان سے سیاسی فاصلہ رکھا؟ تحریک انصاف کے کارکنوں اور عمران خان کے موقف کی تائید کرنے والوں کو کتنا دھچکا لگا ہو گا جب انہوں نے علی جہانگیر ترین کو ضمنی الیکشن میں ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا؟ نا اہل سیاستدان اور جاگیردار کے بیٹے کو ٹکٹ دینا کیا موروثی سیاست کی کھلی حمایت نہیں؟ لیکن صد افسوس پارٹی کی باقی قیادت چپ رہی ما سوائے نعیم بخاری کے، جنہوں نے اس فیصلے کی مخالفت کی۔ تو کیا عمران خان کا اس کی اپنی جماعت میں کوئی عمل دخل نہیں؟ ویسے کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ عمران خان کا کوئی سیاسی وژن نہیں جس سے مجھے بھی سو فیصد اتفاق ہے۔ یوں بھی ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ آج تک اپنے ذاتی تشخص کی وجہ سے کامیاب ہوا ہے۔ وگرنہ اس کے وژن کا اللہ ہی حافظ ہے کیوں کہ اس کے ارد گرد بھی جولوگ موجود ہیں وہ سالہا سال بدبودار سیاست کا حصہ رہے اور آج بھی انہوں نے اپنی اصلاح نہیں کی۔ عمران خان اگر کامیاب ہوا ہے تو وہ اس لئے کہ اس نے متوسط طبقے کی بات کی۔ لیکن اسے اس بات کا بھی ادراک کر لینا چاہئے کہ اب وہ کامیابی اور ناکامی کے بہت قریب ہے۔ وہ چاہے تو مجبوریوں کے آڑے آ کر ناکام ہو جائے یا پھر میرٹ کی بنیاد پر اپنے فیصلوں کو ری وزٹ کرے تا کہ کامیابی کر طرف بڑھ سکے۔ عمران خان تحریک انصاف کے منشور کا پیش لفظ ہی پڑھ لیں جس میں واضح لکھا ہے کہ یہ پارٹی انصاف کے اصولوں پر قائم ہوئی۔ معاشرے میں نا انصافی کے خاتمے پر یقین رکھتی ہے۔ تمام شہریوں کو یکساں حقوق اور موقع فراہم کرنا چاہتی ہے۔ اقلیتوں کے حقوق، خواتین کے حقوق، نوجوانوں کے حقوق کا تحفظ چاہتی ہے۔ منشور میں یہ بھی درج ہے کہ دوسری جماعتوں کی طرح تحریک انصاف خاندانی سیاست کی جماعت نہیں۔ اب فیصلہ عمران خان کو ہی کرنا ہے آیا اس کے لئے کیا بہتر ہے۔ یوں بھی عمران خان نے علی جہانگیر ترین کو ٹکٹ دے کر اپنی پارٹی میں خاندانی سیاست کی بنیاد رکھ دی ہے لیکن ابھی کچھ نہیں بگڑا۔ وہ اس فیصلے پر نظر ثانی کر سکتے ہیں۔ انہوں نے قوم کو باشعور بنانے میں دن رات ایک کئے ہیں۔ دن رات کی محنت سے پھلنے پھولنے والی کھیتی کاٹنے کا وقت سر پر ہے۔ اب ان کے پاس دو حقِ انتخاب ہیں یا تو تیار کھیتی کی دیکھ بھال چھوڑ کر اسے برباد کرلیں یا پھر ذرا انتظار کر کے ثمر پائیں۔ ابھی تو پارٹی میں صرف نعیم بخاری نے آوز بلند کی ہے اگر اس بات کو کارکنوں نے سنجیدگی سے لیا تو کیا ہو گا۔ ایک طرف عمران خان مریم و بلاول کو برا بھلا کہیں اور دوسری طرف علی جہانگیر ترین کو قبول کریں۔ ایسا دوہرا معیار ناقابل قبول ہے۔

    No comments