• Breaking News

    باملاحظہ متحدہ اپوزیشن جماعتیں

    شہر کی تنگ گلی میں چند ہفتے قبل ایک حمام کھلا، جسکے متعدد کسٹمرز نکلے، مگر کوئی ایک کسٹمر غسل نہ کر سکا البتہ اس حمام کے تمام کسٹمرز ایک دوسرے کو نہلانے، دھلانے پر مُصِرّ ہیں۔ پاناما لیکس کا گرم حمام جو ابھی تک ٹھنڈا نہیں ہو سکا، اس نے ہمیں اس کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے کہ سچ کس کو کہیں اور جھوٹ کس کو گردانیں۔ یعنی جھوٹ، جھوٹ کے مقابلے میں کودا ہے۔ ملکی سیاست میں اکلوتی بار حالات اس تنگ گلی سے گزر رہے ہیں، جس گلی کا راستہ معنوی اعتبار سے کھلا ہے مگر بظاہر بند بھی۔ اپنی دھرتی ماں سے کسی کے اخلاص پر کیا کہا جائے، آج کوئی کھل کر الزام لگانے کیلئے اس میرٹ پر نہیں آتا کہ اس کا اپنا پاجامہ لیک ہو جاتا ہے۔ ایک شفاف اور متقی کسی بد دیانت کو موردِ الزام ٹھرائے تو کوئی بات ہے، مگر جہاں "متقی" سب ہوں تو ہم کرپٹ کو کس دیئے کی روشنی سے تلاشیں گے؟ یقین مانئیے، مدلل جھوٹ اور بے دلیل سچ ہماری سیاست کا وطیرہ بن چکا ہے۔
    آئیے، ذرا متحدہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کی عقدہ کشائی کریں، شاید ہمیں کوئی ایسی جہت میسر آئے جو ہمارے ذہنی اور سیاسی ہیجان کو کم کر سکے۔ پاناما لیکس سے پیدا ہونیوالی صورتحالات میں اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں اپنا مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے کیلئے جمع ہو رہی ہین۔ توقع یہی ہے کہ یہ جماعتیں پاناما مسئلے پر پوری قوم کی راہنمائی کریں گی۔ مگر حالات و واقعات سے یہ سب نہایت مشکل نظر آتا ہے۔ ان سیاسی جماعتوں کا اکٹھ نتیجہ خیز ثابت ہو یا پھر کوئی مشترکہ حکمتِ عملی مرتب ہو چونکہ ہماری ہر سیاسی پارٹی کے اپنے من گھڑت اہداف ہیں۔ مگر ملکی سیاست میں زندہ رہنے کیلئے ان سیاسی جماعتوں کیلئے لازم یہی ہے کہ وہ مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دیں، پھر یہ حالات کا تقاضہ بھی ہے، گزشتہ روز بھٹو کی پارٹی کے امین بلاول زرداری نے کوٹلی میں جارحانہ رویہ اپناتے ہوئے وزیراعظم سے مطالبہ کیا کہ وہ مستعفیٰ ہو جائیں، تا دیر تحقیقات جاری رہیں۔ نئی، توانا اور ابھرتی ہوئی مستقبل کی آواز نے اپنے مدبرانہ لہجے میں پاکستان، خطے اور دنیا کی بدلتی سیاسی صورتحالات کا جائزہ لیتے ہوئے نئی سیاست کے خدو خال واضح کئے۔ کیا یہ آواز پھر سے "بھٹو سیاست" کو زندہ کر سکتی ہے؟ یہ ایک الگ بحث ہے۔۔۔ سیاسی اتحادوں کی روایت پاکستان میں بہت پرانی ہے، یہاں پِدے پِدے سیاسی اتحادوں کے علاوہ کئی ایک بڑے بڑے اتحاد بھی تاریخ کا حصہ بنے ہیں۔ جس میں ملک کی قدآوار شخصیات اور بڑی پارٹیاں شامل تھیں۔ پاکستان کے سیاستدانوں کی دستیاب کھیپ میں اعتزاز احسن کا نام ایسے سیاستدانوں کی فہرست میں ہے جنہیں شاید اس قسم کی سیاست کا مکمل تجربہ ہے۔ جنکی کاوشوں سے اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں کم سے کم نکات پر اتفاق رائے پیدا کر سکتی ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کیلئے مشکل ٹاسک یہی ہے کہ انہیں پاناما معاملے کو منطقی انجام تک لے جانا ہے مگر اس کے علاوہ ملک میں احتساب کے نظام کو مزید شفاف اور مستحکم بنانے کا فریضہ بھی ادا کرنا ہے۔ جس کیلئے مسلم لیگ (ن) کی مرکزی حکومت پر دباؤ بڑھانا ہے اور احتیاط کرنی ہے کہ جمہوری عمل چلتا رہے کیونکہ: ؂ 
    بڑی مشکل سے ہوتی ہے کہیں جمہوریت پیدا
    آج وقت قومی اتفاق رائے کا تقاضہ کرتا ہے۔ اس معاملے پر اگر اپوزیشن جماعتیں ڈھیلم ڈھیلی رہیں تو اس سے نہ صرف نوازحکومت کو فائدہ پہنچے گا بلکہ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کو سیاسی شاک خاکستر کر سکتا ہے۔ ننگی تن ڈھانپتی اپوزیشن کے لچکدار ردِ عمل سے یہ تاثر بھی ابھر سکتا ہے کہ سیاستدان ایک دوسرے کے بچاو کی سیاست کر رہے ہیں۔ اس نازک موڑ پر ضروری نہیں کہ تمام سیاسی جماعتیں متفق ہوں مگر معروضی حالات کے تحت ملک و قوم کیلئے فیصلہ کیا جائے۔ اس پر کوئی سٹیٹس کو کی سیاست کرتا ہے تو کرنے دیجئیے، مگر وژنری جماعتیں اپنا مشترکہ لائحہ عمل بنائیں اور قدم اُٹھائیں تو عوام ان کے ساتھ ہیں۔ اپوزیشن کو چوہدری اعتزاز احسن کے اس موقف کی پزیرائی کرنی چاہئیے کہ تحقیقات کا دائرہ کار وزیرِ اعظم کے خاندان تک محدود رکھا جائے۔ کیونکہ وزیراعظم کے چیف جسٹس کے نام خط میں تحقیقاتی کمیشن کا دائرہ کار بہت وسیع ہے، وزیراعظم متمنی ہیں کہ تحقیقات کا دائرہ قرض نادہندگان، قرضہ معاف کرنیوالوں سے لے کر ماضی کے حکمرانوں تک وسیع کیا جائے جس سے قوی امکان ہے پاناما لیکس کا معاملہ سرد پڑ جائے گا۔ یوں تحقیقات کا انجام سالہا سال تک اٹکا رہے گا۔ اگر احتساب کا کینوس بڑا کیا گیا تو شاید اہداف حاصل نہ ہوں، یہ توجیہ سراسر غیر منطقی اور ناجائز ہے کہ اگر احتساب سب کا نہیں ہو رہا تو کسی کا بھی نہیں ہونا چاہئیے۔ یہ مہر ثبت ہو چکی ہے کہ پاناما پیپرز میں شریف خاندان کے نام آئے ہیں، جن پر منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کے سنگین الزامات ہیں۔ تو انہیں ملک کا تیسری بار وزیراعظم منتخب ہونے کے ناطے صرف خود کو احتساب کیلئے پیش ہو جانا چاہئیے۔ یوں احتساب کا نظام از خود قائم ہو جائے گا۔ قارئین!!! جس عہد میں ہمارا ظہور ہوا ہے یہاں ممکن نہیں کہ حکومت یا اپوزیشن کے لوگ سیاسی پیچیدگیاں تخلیق کر کے بد عنوانوں کو بچا سکیں۔ اپوزیشن کے سمجھنے کی بات بھی یہی ہے کہ وہ احتساب کے قومی مطالبے کو اپنی سیاست کے ذریعے غیر مؤثر نہیں بنا سکتے۔ وزیرِ اعظم کو یہ بات بھی ازبر کر لینی چاہئیے کہ وہ سرکاری اخراجات پر عوامی میلہ سجا کر دباؤ سے باہر نکل سکیں گے۔ ہمارے قومی و سیاسی مفاد کیلئے مناسب یہ ہے کہ پاناما لیکس کے معاملے پر احتساب محدود ردِ عمل سے شروع کیا جائے مگر فوری۔ بعد ازاں یہ سلسلہ رفتہ رفتہ جتنا بھی بڑھا لیا جائے شکایت نہ ہوگی۔ ہمارے معتمد سیاستدانوں کی نذر ایک شعر اس امید سے کہ شاید معاملہ فہمی کا ادراک کر سکی    
    ہوئی ہے مستقل قربانیوں سے یہ جہت پیدا
    کرو جمہوریت میں خلجان مت پیدا

    No comments